اس ہفتے کےآغاز میں دنیا کی معمر ترین صدر مہاتیر محمد کے استعفیٰ نے ملائیشیا میں ایک سیاسی بحران کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ملائیشیا کی عوام ابھی تک مہاتیر محمد کی جانشین پر راضی نہیں ہوسکی جنہوں نے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر ڈال دیا تھا۔
مہاتیر محمد بیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد 2003 میں ریٹائر ہوئے لیکن ریاستی سرمایہ کاری فنڈز میں بدعنوانی کے بعد مہاتیر محمد 2016 میں دوبارہ اقتدار میں آئے۔ ملائیشیا کے ایم ڈی بی اسکینڈل نے عوام کو شدید بے چینی میں مبتلا کردیا تھا۔ مہاتیرمحمد نے کہا تھا کہ انہیں اقتدار کی خواہش نہیں اور سیاسی استحکام آنے کے بعد وہ اقتدار چھوڑ دیں گے۔
اپنی سیاسی کاوشوں کی بدولت مہاتیر محمد نے اپنے سابق نائب انور ابراہیم کے ساتھ صلح کی اور اتحاد قائم کیا۔ دونوں رہنماؤں میں دہائیوں پر محیط سیاسی رقابت پائی جاتی ہے۔ 1990 کی دہائی میں مہاتیر محمد نے بطور وزیراعظم انور ابراہیم کو سیاسی رسہ کشی سے باہر کردیا تھا اور انہیں بدعنوانی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس اتحاد نے 2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور مہاتیر وزیر اعظم بن گئے۔ مہاتیر نےبطور قائد تھوڑی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا لیکن انہوں نے یہ بتانے سے انکارکیا کہ وہ کب تک برسر اقتدار رہیں گے۔
مہاتیر محمد کے استعفے کے بعد سےملائیشیا میں سیاسی بحران میں اضافہ ہوا ہے۔ مہاتیر کی اپنی ہی پارٹی کے ایک گروہ نے وزیر اعظم کے لئے اپنا ہی امیدوار منتخب کرنے کی ناکام کوشش کی جبکہ پارلیمنٹ نے بھی آئندہ وزیراعظم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے خصوصی اجلاس ملتوی کردیا ہے۔یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ آیا مہاتیر اپنی پارٹی کے چیئرمین رہیں گے تاہم اس وقت وہ ملائیشیا کے عبوری وزیراعظم ہیں۔
ملائشیا میں کوئی نہیں ہے جو مہاتیرمحمد سے بہتر اس ملک کی سیاست کو جانتا ہو۔ وہ اپنے نامزد جانشین کے ساتھ نیا اتحاد تشکیل دینے کا ارادہ رکھتیں ہے۔ چونکہ کسی بھی جماعت کی اکثریت نہیں ہے ، لہذا ملائیشیا کے آئینی سربراہ کو نئی حکومت بنانے کے لئے انتخابات کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنا پڑے گا۔ مہاتیر محمد کو ملیشیا کے نسلی ووٹرزکے جیتنے کی امید ہے جنہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے میں ان کی مدد کی تھی لیکن اس سے ملائیشیا کی سیاست میں اصلاح کی کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں۔
سیاست ہیر پھیر میں مہارت رکھنے کے باوجود مہاتیرمحمد ایک غیر معمولی عالمی رہنما رہے ہیں جنہوں نے چینی سرمایہ کاری پر نظرثانی کی کیونکہ انہوں نے معیشت کو فروغ دینے کے لئے غیر ملکی قرضوں کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کو متاثر کرنے والے مسائل کے حل کے لئےکے ایل سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، ہ اب بھی بہت سےملائشین کے بہت اہم حیثیت کے حامل ہیں جنہیں اب اپنے پیارےعمر رسیدہ قائد کے جانشین کا انتخاب کرنا ہے۔