قتیلِ تیغِ تعصب مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

شعور کی ابتدائی منزل پر ہم شاہ صاحب کے افکار و کردار سے آشنا ہوئے، مولانا سندھی سے عقیدت اور ان کی انقلابی فکر سے انسیت کی بناء پر شاہ صاحب سے غائبانہ رشتۂ عقیدت قائم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔

رفتہ رفتہ اس فکر کا مطالعہ بڑھنے لگا تو تشنگی کا احساس بھی گہرا ہوتا گیا۔ یہ تشنگی شاہ صاحب سے راست استفادے کی تھی، مگر حیف کہ وقت نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنے کانوں سے سننے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ایک دن اچانک پتا چلا کہ
ادا کر کے قرض اپنی خدمات کا
سحر دم سے وہ جاگا ہوا رات کا
ابد کے سفر کو روانہ ہوا
مکمل سفر کا فسانہ ہوا
نہ پوچھئے دل کی نگری کس تاثر کی برکھا میں نہا گئی۔ غم و اندوہ کے ابر کا ایک ٹکڑا آیا، برسا اور ایک روٹھ کے گزر گیا۔ مجھے سب سے زیادہ اس دکھ کے احساس نے شدت سے جکڑ لیا کہ قبیلے کے پنچوں نے آخر کس جرم میں اس شہ دماغ انسان اور مرد حق آگاہ کو تنہا کرنے کی کوشش کی۔ فکر اس بات کی نہیں تھی کہ اس ہتھکنڈے سے اس کی راہ کیوں روکی گئی، کہ بھلا خوشبو کو بھی کوئی مقید کر سکا ہے؟ غم اس بات کا دامن دل کو آلگا تھا کہ کیوں مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو اس پیر مغاں کی صحبت سے محروم رکھا گیا؟ وہ دوائے دل ہی تو بیچ رہا تھا، وہ شعور و آگہی کی دولت ہی تو بانٹ رہا تھا، اس سے آپ کو تکلیف کیا تھی، نقصان کیا تھا؟ نقصان اس کا کیا یا قوم کے اس نوجوان خون کا کیا، جو شعور کی دولت سے بے بہرہ رہنے کے باعث اغیار کی آدرشوں اور خواہشوں کی تکمیل، تسکین اور تقویت کا سبب بن کر ھدر ہوگیا۔

   مولانا شاہ سعید احمد رائپوری جنوری  1926 میں پیدا ہوئے  اور بھرپور تحریکی، فکری، انقلابی زندگی گزار کر 26 ستمبر 2012  کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ آپ خانقاہِ رائپور کے مسند نشین رہے اور اپنے دور میں ان گنے چنے لوگوں میں نمایان مقام رکھتے تھے جو ہندوستان کے عظیم سیاسی مفکر اور محدث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فکر و نظر پر خصوصی گرفت رکھتے تھے۔

شاہ سعید احمد رائپوری بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کے ممتاز شاگرد تھے۔ عملی سیاست کی تقسیم سے بالاتر ہو کر انہوں نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، اسیر مالٹا مولانا محمود حسن دیوبندی، شاہ عبد القادر رائپوری، مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا حسین احمد مدنی کی سوچ کی بنیاد پر انہوں نے 1967ء میں جمعیت طلبۂ اسلام، 1987ء میں تنظیم فکرِ ولی اللّٰہی اور 2001ء میں ادارۂ رحیمیہ علومِ قرآنیہ قائم کیا،  ادارہ رحیمیہ کے مختلف کیمپس کراچی، سکھر، ملتان، اور پنڈی میں قائم ہوئے۔ دیگر ذیلی ادارے مثلاً شاہ ولی اللہ میڈیا فاونڈیشن اور نظام المدارس رحیمیہ بھی آپ کی سرپرستی میں قائم ہوئے۔ آپ کی فکر اور تحریک نوجوانوں کو بے حد اپیل کرتی تھی، چنانچہ ان کی زندگی میں ہزاروں نوجوانوں نے ان سے استفادہ کیا اور دین کی راہ پائی۔

1992ء میں ان کے والد شاہ عبد العزیز رائے پوری نے انہیں اپنا جانشین مقرر کیا۔ آپ کا تعلق بر صغیر کی عظیم دینی اور انقلابی خانقاہ خانقاہ رائے پور انڈیا سے رہا۔ یہ خانقاہ محض ذکر و اذکار کا مرکز نہ تھی، بلکہ انگریز استعمار سے آزادی کی فکر بیدار کرنے کا عظیم تربیتی مرکز بھی تھی۔ چنانچہ اس مرکز انقلاب سے تربیت پاکر مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری نے ساری زندگی اس فکر کے چراغ روشن کرنے کی جدو جہد میں صرف کیے جس کی تربیت انہوں نے اپنے والد اور سلسلے کے دیگر  بزرگوں کے افادات سے پائی تھی۔

مولانا سندھی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فکر کو عملی جدوجہد کی اساس بنانے کے باعث کارپوریٹ مذہبی اداروں اور سرمایہ پرست علماء کی جانب سے انہیں فتوؤں کے ذریعے بنانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی، اس بات کی کوشش کی گئی کہ انہیں روایتی علماء اور دینی مدارس کے ماحول سے کاٹ کر رکھ دیا جائے، مگر شاہ صاحب نے مزاحمت میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو خاموشی سے نئی راہیں ڈھونڈنے پر صرف کیا اور سرخرو ٹھہرے۔

Related Posts