حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت کا آغاز ایسے مرحلہ پر ہوا جب اسلامی ریاست 22 لاکھ مربع میل سے زائد وسعت اختیار کرچکی تھی، اور یہ اضافہ بدستور جاری تھا۔ چنانچہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی تھی۔ سو حضرت علی کرم اللہ و جہہ نے پولیس کے محکمے پر خصوصی توجہ دی۔ نہ صرف یہ کہ بہت بڑے پیمانے پر اس میں بھرتیاں کیں بلکہ اسے نیم فوجی دستے میں بھی تبدیل کردیا۔ خود دارالحکومت میں جو سرکاری افسران حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہمہ وقت قریب رہتے ان میں پولیس چیف بھی شامل تھے۔ جنہیں ہر وقت ہدایات و احکامات دیئے جا رہے ہوتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی پولیس کی ذمہ داریوں میں ذاتی طور پر حصہ لیا۔ یعنی صرف یہ نہ تھا کہ امیر المومنین کے طور فقط حکم جاری کردیا اور آج کے حکمرانوں کی طرح معاملہ بس انہی پر چھوڑ دیا۔ مثلاً ایک نوجوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور شکایت کی کہ میرے والد فلاں فلاں افراد کے ساتھ سفر پر گئے تھے۔ یہ افراد تو واپس آگئے مگر میرے والد ان کے ساتھ نہیں لوٹے۔
رعایت اللہ فاروقی کا یہ کالم بھی پڑھیں: