”پولیس والا“ / آخری حصہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت کا آغاز ایسے مرحلہ پر ہوا جب اسلامی ریاست 22 لاکھ مربع میل سے زائد وسعت اختیار کرچکی تھی، اور یہ اضافہ بدستور جاری تھا۔ چنانچہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی تھی۔ سو حضرت علی کرم اللہ و جہہ نے پولیس کے محکمے پر خصوصی توجہ دی۔ نہ صرف یہ کہ بہت بڑے پیمانے پر اس میں بھرتیاں کیں بلکہ اسے نیم فوجی دستے میں بھی تبدیل کردیا۔ خود دارالحکومت میں جو سرکاری افسران حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہمہ وقت قریب رہتے ان میں پولیس چیف بھی شامل تھے۔ جنہیں ہر وقت ہدایات و احکامات دیئے جا رہے ہوتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی پولیس کی ذمہ داریوں میں ذاتی طور پر حصہ لیا۔ یعنی صرف یہ نہ تھا کہ امیر المومنین کے طور فقط حکم جاری کردیا اور آج کے حکمرانوں کی طرح معاملہ بس انہی پر چھوڑ دیا۔ مثلاً ایک نوجوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور شکایت کی کہ میرے والد فلاں فلاں افراد کے ساتھ سفر پر گئے تھے۔ یہ افراد تو واپس آگئے مگر میرے والد ان کے ساتھ نہیں لوٹے۔

رعایت اللہ فاروقی کا یہ کالم بھی پڑھیں:

”پولیس والا“ / پہلا حصہ 

نوجوان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے اپنے والد کا پوچھا تو جواب ملا کہ وہ فوت ہوگئے تھے ہم نے راستے میں ان کی تکفین و تدفین کردی۔ میں نے کہا میرے والد کا سامان کہاں ہے ؟ تو جواب دیا کہ ان کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان افراد کو گرفتار کرکے لانے کا حکم جاری کردیا۔ جب انہیں حضرت علی کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے حکم دیا کہ ان سب کو ایک دوسرے سے الگ الگ رکھا جائے، انہیں آپس میں بات کابھی موقع نہ دیا جائے اور ان کے پیغام بھی ایک دوسرے کو نہ دیئے جائیں۔ اس کے بعد حضرت علی نے ایک محرر کو بٹھایا اور اسے حکم دیا کہ وہ پوری تفتیش کو سپرد قلم کرے۔ اور ایک ایک کرکے ان ملزمان کو انویسٹی گیشن کے لئے طلب کرنا شروع کردیا۔ پہلے ملزم سے تفتیش کے دوران پوری تفصیل کے ساتھ حضرت علی نے سوالات شروع کئے۔ مثلاً یہ کہ سفر کس وقت شروع کیا، کتنے افراد تھے، کہاں کہاں سے گزر ہوا، کہاں کہاں قیام کیا ؟ کیا کھایا، کیا پیا۔ اور پھر لاپتہ ساتھی سے متعلق سوالات کہ کہاں فوت ہوئے ؟ موت کا سبب کیا تھا ؟ موت کس وقت واقع ہوئی ؟ موقع پر اور کون کون تھا ؟ غسل کس نے دیا ؟ کفن کس نے پہنایا ؟ جنازہ کس نے پڑھایا ؟ تدفین کہاں ہوئی ؟ جب اس پہلے ملزم سے تفتیش پوری ہوگئی تو اسے واپس لاک اَپ میں بھیجتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پولیس کو حکم دیا کہ جب اسے لے کر نکلو تو پرجوش انداز سے یوں اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرو جیسے اس ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہو۔ چنانچہ یہ شور اور نعرے جب باقی ملزمان نے سنے تو ان کے تو اوسان خطاء ہوگئے، وہ اس نفسیاتی دباؤ میں آگئے کہ ہمارے ساتھی نے اعتراف کر لیا ۔ اور یوں جب باقی ملزمان کو بلایا گیا تو انہوں نے سوچا کہ کیس تو پہلے ہی حل ہوچکا، اب انکار کا کیا فائدہ۔ چنانچہ انہوں نے قتل کا اعتراف کر لیا۔ اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے دیت بھی وصول کی اور مقتول کا سامان بھی برآمد کر لیا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور کی ایک خاص بات پولیس کے محکمے کی توسیع ہے۔ اس دور میں پولیس کے محکمے کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف مصر میں اس کی نفری 12 ہزار پر مشتمل تھی۔ اور مصر کا پولیس چیف بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت قیس بن سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر فرمایا تھا جن کی اس کردار کے لئے تاریخی لحاظ سے ایک بڑی اہمیت یہ تھی کہ آپ اسلامی تاریخ کے پہلے پولیس افسر کی ذمہ داری تو دور رسالت میں ہی نبھا چکے تھے۔ یوں اس کام میں حضرت قیس کا کوئی ہمسر ہی نہ تھا۔ پچھلی سطور میں عرض کیا جا چکا کہ حضرت انس بن مالک نے انہیں رسول اللہ ﷺ کا صاحب الشرطہ بتایا ہے اور حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے کہ رسول ﷺ کی حیات مبارکہ میں نہ تو کوئی باقاعدہ پولیس کا محکمہ تھا اور نہ ہی صاحب الشرطہ کی اصطلاح وجود رکھتی تھی۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ شرطہ کی اصطلاح نے پولیس کے محکمے کے لئے باقاعدہ نام کی حیثیت حضرت قیس بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے دستے سے ہی حاصل کی ہے۔ اور وہ یوں کہ یہ دستہ چونکہ نیم فوجی دستے کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا تو یہ بوقت ضرورت جنگوں میں صفِ اوّل میں ہوا کرتا تھا اور اصل لشکر سے آگے ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ اس عسکری رول کے سبب اس فورس کو میدان جنگ میں شرطہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اور اس کی اس فعال و نیک نام شہرت کے نتیجے میں ہی یہ نام پورے پولیس محکمے کو مستقل دیدیا گیا۔

اگر غور کیجئے تو پچھلے بیس برس کے دوران ہماری پولیس نے بھی وہی ذمہ داری نبھائی ہے جو حضرت قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے شرطہ نے انجام دی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں ہماری ریاست کو ایک ایسے دشمن کا سامنا تھا جو گوریلا تھا اور گوریلا  جنگ ہی لڑ رہا تھا چنانچہ یہ گوریلے سرحدوں کی دو بدو جنگ کی بجائے سٹی وارفیئر کی حکمت عملی کے ساتھ اچانک سامنے آتے تھے۔ اور جب یہ سامنے آتے تو ان کا پہلا سامنا ہماری پولیس ہی کرتی۔ آرمی کو طلب کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تو صورتحال دیکھ کر بعد میں ہی کیا جاتا۔ دہشت گردوں کا پہلا سامنا ہماری پولیس فورس سے ہی ہوتا تھا۔ اور کوئی شک نہیں کہ یہ سامنا بیس سال تک ہماری پولیس نے یوں کیا کہ اس فورس کے تو ہتھیار تک وہ نہ ہوتے جو دہشت گردوں کے پاس ہوتے تھے۔ مثلاً دہشت گرد راکٹ لانچرز، دستی بم، خود کش بمبار، ریموٹ کنٹرول بم، کار بم حتیٰ کہ ٹرک بموں سے بھی لیس ہوتے۔ جبکہ پولیس فورس کے پاس فقط زنگ لگی کلاشنکوفیں ہوتیں۔ اور اس کے باوجود یہ فورس کبھی میدان سے بھاگی نہیں۔ جو بھی اور جتنے بھی وسائل اسے میسر تھے ان وسائل کے ساتھ یہ حضرت قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فورس کی طرح دونوں ذمہ داریاں انجام دیتی رہی۔ دشمن کے خلاف فرنٹ لائن جنگ بھی لڑتی رہی اور شہروں و قصبوں میں پولیسنگ کا کام بھی کرتی رہی۔ اس پورے عرصے میں واقعتاً صورتحال یہ رہی کہ ابھی ایک افسر کسی جرم کی تفتیش جیسی مروجہ پولیس ڈیوٹی کر رہا ہے تو چند گھنٹوں بعد وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بطور قوم پولیس کے اس بے مثال کردار کو اس طرح سراہا جس طرح سراہنے کا حق تھا ؟ سراہنا بھی چھوڑئیے، کیا ہمیں پولیس کے اس کردار کا ادراک تک ہے جو اس نے نائن الیون کے بعد ادا کیا ہے ؟ اگر غور کیا جائے تو پولیس ہمارے ہاں ایسا واحد ادارہ ہے جس کے لئے ہم نے شاید طے کر رکھا ہے کہ اس کے صرف اسکینڈلز کو توجہ دینی ہے۔ ایک اسکینڈل آجائے تو اسے ہم ہفتوں اور مہینوں اچھالتے ہیں مگر ان کی بہادری کا کوئی کارنامہ بھلانے میں ہم زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے لگاتے ہیں۔ یوں پولیس کو اپنی نیک نامی نامی برقرار رکھنے کے لئے تو ہر 48 گھنٹے بعد کسی کارنامے کی ضرورت درپیش رہتی ہے لیکن اسے پورا سال رسوا کرنے کے لئے دو تین اسکینڈلز ہی بہت ہوتے ہیں۔ ہماری شعوری ناانصافی تو اس مقام پر کھڑی ہے کہ آفتاب سلطان، افضل شگری اور طارق کھوسہ جیسے پولیس افسران کی دیانت سے بھرپور خدمات کو بھی ان کا ذاتی کارنامہ بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی نیک نامی کو پولیس فورس کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی ہمیں عادت ہی نہیں ہے۔ اور ان کی امانت و دیانت کی گواہی بھی ہم تب دیتے ہیں جب یہ ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔ جب تک وردی میں ہیں تو ان کی حیثیت ہمارے لئے بس پولیس والا کی ہے۔

Related Posts