لاہور ہائیکورٹ کا ینگ ڈاکٹرز کو ہڑتال ختم کرنے اور حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈر کیساتھ مشاورت کا حکم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Lahore High Court

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاہور ہائیکورٹ نے ینگ ڈاکٹرز کو ہڑتال ختم کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہڑتال کی صورت پر توہین عدالت کی کارروائی میں جیل جائیں گے، ڈاکٹرز یونیفارم میں عدالت نہیں اسپتالوں میں ہونے چاہئیں۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے ایڈوکیٹ اظہر صدیق کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران ، پی ایم ڈی سی ،کالج آف فزیشنز اورینگ ڈاکٹروں کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے ۔

سماعت کے دوران ینگ ڈاکٹر زکے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ او پی ڈی میں ہڑتال نہیں ہے، جو آرڈیننس نافذ کیا گیا وہ نامکمل ہے، اس پر عدالت نے استفسار کیاکیا آئینی طور پر پروفیشنل ہڑتال کرسکتے ہیں؟۔

عدالت اس بارے تفصیلی حکم جاری کرے گی، یہ سیکرٹری صحت کا قصور ہے کہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہے، جب تک تمام اسٹیک ہولڈر نہیں بیٹھتے مسئلہ حل نہیںہوتا، ڈیوٹی اوقات میں ہڑتال کرنا جرم ہے۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ وکلا ء بھی ہڑتال کرتے ہیں لیکن اہم کیسز میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں، اس دوران ینگ ڈاکٹرز کو مشاورت کی ہدایت کرکے عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ابھی تو آرڈیننس آیا ہے قانون تو بنا ہی نہیں پھر ہڑتال کیوں کی گئی؟۔

اس پر ینگ ڈاکٹر کے وکیل نے کہا ہم اچھا تاثردینے کے لئے ہڑتال ختم کررہے ہیں۔ڈاکٹرز صرف اپنا موقف بیان کرنا چاہتےتھے، جذبات میں آنے پرمعذرت کرتے ہیں، اس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ پروفیشنلز نے معاشرے کو اپنی خدمات دینا ہوتی ہیں، عدالت اپنے فیصلے میں ہڑتال کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گی۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ چیف سیکرٹری کی کمیٹی میں تمام فریقین کا موقف سنا جائے، ہڑتال تو اکتوبر سے چل رہی ہے تو پھر کمیٹی کل کیوں بنائی گئی، فریقین کے تحفظات کو سننے کے لیے اتنی تاخیر سے کیوں کمیٹی بنائی گئی۔فاضل عدالت نے کہا کہ اس قانون سے متعلق جتنے بھی فریق ہیں ان کا موقف سننا لازمی ہے۔

اس پر سیکرٹری صحت نے بتایا کہ یہ لوگ اب قانون کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ فی الحال تو ہڑتال ختم کرکے کام شروع کریں۔وکیل نے کہا کہ ینگ ڈاکٹرز قوم کا مستقبل ہیں، ان کے مستقبل کو بھی تحفظ ملنا چاہیے، اس پر سیکرٹریٹ صحت نے کہا کہ یہ قانون آرڈیننس سے بالکل مختلف ہوگا۔

سماعت کے دوران جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دئیے کہ ایسی ہڑتال کرنے پر سپریم کورٹ کا بھی حکم موجود ہے، وہ کچھ قواعد و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔

اس پر ڈاکٹرز کے وکیل نے بتایا کہ ایسے قانون کے مسودے سے بھی ڈاکٹرز کا شعبہ متاثر ہوتا ہے، جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں ڈاکٹرز کے نمائندے بھی شامل نہیں ، جس پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ڈاکٹرز کے علی رضا، وکیل عابد ساقی، وائے ڈی اے کے صدر اور جنرل سیکرٹری کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا جائے، یہ کمیٹی اس پر مشاورتی ورکشاپ کرے گی۔

جسٹس جواد حسن نے کہا کہ اس کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے تاہم ڈاکٹرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی جبکہ ڈاکٹرز بھی ہڑتال نہیں کریں گے۔اس پر سیکرٹری صحت نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو پہلے ہی اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ وہ اس پر جواب دیں۔

بعد ازاں عدالت نے حکم دیا کہ ڈاکٹرز ہڑتال ختم کریں اور خوشی سے جاکر کام شروع کریں جس پر وکیل نے عدالت میں کہا کہ ہم عدالتی حکم پرعمل کریں گے اور آج ہی ہڑتال ختم کریں گے، ہم عدالت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

فاضل عدالت نے آرڈیننس سے متعلق سیکرٹری صحت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی فائنل ڈرافٹ کا مسودہ اور رپورٹ 23نومبر کو عدالت میں جمع کرائے،ڈاکٹر اس دوران کسی بھی قسم کی ہڑتال پر نہیں جائیں گے ۔

ہڑتال کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی میں جیل جائیں گے،فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت2دسمبر تک ملتوی کردی۔

Related Posts