وفاقی حکومت کو محصولات کا 73 فیصد مہیا کرنے والے شہر کراچی کی بلدیہ عظمیٰ 7 ارب کی مقروض نکلی جبکہ بلدیہ کے 250 ملازمین اپنی گزشتہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔
تفصیلات کے مطابق تنخواہوں ، پنشن اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات سمیت بلدیہ عظمیٰ کراچی پر ساڑھے 3 ارب کے واجبات ہیں۔جولائی 2018ء میں بھرتی کیے گئے 722 ملازمین کو تنخواہ جنوری 2019ء سے ادا کی گئی، جن میں سے 250 ملازمین اب تک اپنی پچھلی تنخواہوں سے محروم ہیں۔
ملازمین و افسران کی تنخواہوں میں 2سال سے کیے گئے حکومت سندھ کے اضافے میں سے کافی تاخیر سے چند روز قبل 15فیصد اضافہ کیا گیا ،یعنی رواں سال کا تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور 10 ماہ کی تاخیر سے 15فیصد گزشتہ بجٹ میں کیے گئے تنخواہوں میں اضافے کے کروڑوں روپے کے واجبات ہیں۔
اسی طرح 5ہزار 600 ریٹائرڈ ملازمین اورڈیوٹی پر انتقال کرجانے والے بھی اب تک اپنے قانونی واجبات سے محروم ہیں،جو گزشتہ 10 سال میں ریٹائرڈ ہوئے یا انتقال کر گئے ہیں۔شہر بھر میں ترقیاتی کام کرنے والے سینکڑوں ٹھیکیدار بھی اپنے واجبات سے محروم ہیں۔
ٹھیکیداروں کے واجبات ساڑھے تین ارب روپے ہیں جبکہ بلدیہ عظمیٰ کو ڈاکٹرز اور پیرا میڈیک اسٹاف کو ملنے والے خصوصی کورونا رسک الاؤنس کے بھی کروڑوں روپے ادا کرنے ہیں، حیرت انگیز طور پر حکومت سندھ نے گزشتہ کئی سال سے بلدیاتی اداروں کے آکٹرائے ضلع ٹیکس( او زیڈ ٹی) کے ماہانہ حصے میں قانونی سالانہ اضافہ نہیں کیا۔
ماہانہ حصے میں قانونی اضافہ نہ کرنے کے حکومتِ سندھ کے اقدام کے باعث ہر ماہ تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ مالی بحران کے باعث بلدیہ عظمیٰ کراچی ادائیگیاں نہیں کر پا رہا اور 7 ارب کے لگ بھگ مقروض ادارہ بن گیا ہے۔
یاد رہے کہ اِس سے قبل بلدیہ عظمیٰ کراچی نے پرانی سبزی منڈی کی اربوں روپے مالیت کی 11 ایکڑ اراضی کو56 کروڑمیں نیلام کردیا ، نیلامی کے بعد جلد بازی میں سٹی کونسل سے منظوری بھی لے لی گئی۔
اپوزیشن جماعتوں نے4 روز قبل سخت اعتراض اٹھاتے ہوئے فوری طور پر نیلامی منسوخ کرنے اور نیلامی کمیٹی میں حزب اختلاف کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
مزید پڑھیں: بلدیہ عظمیٰ نے اربوں روپے کی 11 ایکڑ اراضی 56 کروڑ میں نیلام کردی