کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی میں 9 ماہ سے 1 سال لگ سکتا ہے۔پراجیکٹ ڈائریکٹر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی میں 9 ماہ سے 1 سال لگ سکتا ہے۔پراجیکٹ ڈائریکٹر
کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی میں 9 ماہ سے 1 سال لگ سکتا ہے۔پراجیکٹ ڈائریکٹر

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پراجیکٹ ڈائریکٹر کے سی آر کا کہنا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی اگر منصوبہ بندی کے تحت شروع ہو گئی تو9 ماہ سے ایک سال لگ سکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ناظم آباد تا گلشن اقبال ریلوے ٹریک پر 24 پل اور انڈر پاسز بنیں گے جس کے بعد آئندہ برس ستمبرتک سرکلر ریلوے مکمل بحال ہونے کا امکان ہے۔ 90ء کی دہائی میں بند ہونے والی کراچی سرکلر ریلوے کو 21 سال بعد جزوی بحال کیا گیا ہے جسے 3 مرحلوں میں مکمل بحال کیا جائے گا۔

پہلے مرحلے میں پپری تا سٹی اسٹیشن بحال کردیا گیا ہے  جبکہ اس ٹریک پر پہلے ہی پسنجر ٹرینوں کی آمدورفت جاری ہے۔دوسرا مرحلہ سٹی اسٹیشن سے آگے وزیر مینشن ، لیاری ، بلدیہ ریلوے اسٹیشن اور اس سے آگے ناظم آباد کے علاقے میں قائم اورنگی ریلوے اسٹیشن اسٹیشنز کے درمیان ریلوے ٹریک کی بحالی کا کام جاری ہے جبکہ اس کے اوپر سے گزرنے والی سڑکوں پر پھاٹک بنانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ 21 سال میں جہاں جہاں ٹریک یا پٹڑیاں خراب ہو چکی ہیں ان حصوں کو تبدیل کیا جا رہا ہے ، تاہم یہاں مچھر کالونی کے مکینوں نے ایم ایم نیوز ٹی وی کو بتایا کہ ٹریک کی حالت بہت خراب ہے اگر مکمل ٹریک تبدیل نہ ہوا تو حادثے رونما ہوسکتے ہیں۔ مکینوں نے بتایا کہ سرکلر ریلوے سابق صدر ایوب خان کے دور میں بحال ہوا تھا۔

مچھر کالونی کے مکینوں کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں سرکلر ریلوے بند کردیا گیا تھا جو دوبارہ بحال ہوا اور پھر نواز شریف کے دور میں بند کردیا گیا۔ پھر بحال ہوا تو دوبارہ بے نظیر بھٹو کے دور میں 1995 میں بند کیا گیا جو آج کل پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بحال کیا جارہا ہے۔ 

مکینوں کا کہنا تھا کہ اگر درست انداز میں سرکلر ریلوے کی سہولت بحال ہو جائے تو شہریوں کو بہترین سفری سہولت میسر آئے  گی تاہم پہلے بھی ٹرین نا مناسب اوقات میں چلا کر ریلوے کو نقصان پہنچایا گیا اور اب بھی سٹی اسٹیشن سے 5 بجے ٹرین روانہ کر کے دفاتر میں ملازمت کرنے والے افراد کو محروم رکھا جا رہا ہے۔

شہریوں کے مطابق سیکورٹی کے مکمل انتظامات کے بغیر ٹرینیں نہیں چلانی چاہئیں،اس حوالے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر سرکلر ریلوے امیر احمد داؤد پوتہ نے ایم ایم نیوز کو بتایا کہ تیسرے مرحلے میں ٹریک بچھانے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ٹریک کے دونوں اطراف 50 فٹ جگہ موجود ہے ، تاہم ہماری جگہ 100سے زیادہ ہے۔

پراجیکٹ ڈائریکٹر امیر داؤد پوتہ نے بتایا کہ یہاں جو تجاوزات ہیں وہ عدالتی حکم پر ہٹائی جائیں گی جس کے لیے سندھ حکومت اور محکمۂ ریلوے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تجاوزات ہٹانے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں، جلد کام شروع کر دیا جائے گا تاہم اورنگی کے بعد تیسرے مرحلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ریلوے کراسنگز ہیں جہاں پھاٹک لگانے ہیں۔

پی ڈی سرکلر ریلوے نے کہا کہ ناظم آباد میں بورڈ آفس کے قریب 9 ٹریکس کی سڑک پر پھاٹک لگانا ناممکن ہے۔ اسی طرح آگے دیگر مقامات پر جہاں چوڑی سڑکیں ہیں وہاں پھاٹک کی تنصیب سے ٹریفک جام کی صورتحال ہو سکتی ہے جس سے شہر بھر میں ٹریفک جام ہو جائے گا۔

سرکلر ریلوے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ سرکلر ریلوے ٹریک پر 24 مقامات پر سڑکوں کی ریلوے کراسنگز پر پل اور انڈر پاسز بنا کر ٹرین کا راستہ اور سڑکوں پر ٹریفک بحال رکھی جائے۔ سرکلر ریلوے پر پلوں اور انڈر پاسز کی تعمیر کے لیے” ایف ڈبلیو او” ” کو ذمہ داری دی گئی تھی۔ 

امیر داؤد پوتا نے کہا کہ سرکلر ریلوے کا ڈیزائن مکمل ہو چکا ہے۔ جلد شہری اس پر کام ہوتا دیکھیں گے۔ ریلوے اس کام میں تیکنیکی سہولت فراہم کر رہا ہے باقی تمام کام سندھ حکومت ایف ڈبلیو او سے کر وا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میں سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی کا وقت لکھ کر دیا گیا ہے اور ہمیں یہ قوی امید ہے کہ اگر سندھ حکومت نے انڈر پاسز اور پلوں کی تعمیر کا کام بروقت کرا لیا تو ہم 9 ماہ میں سرکلر ریلوے مکمل بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: تصویری تجزیہ، کراچی سرکلر ریلوے آپریشن شروع کردیا گیا

Related Posts