کراچی میں بھگدڑ کا سانحہ اور حکومت کی ذمہ داری

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

کراچی میں راشن لینے کی جدوجہد کے دوران مچنے والی بھگدڑ کے نتیجے میں قیمتی زندگیاں ضائع ہوگئیں، یہ ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ صرف اس رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں ملک کے مختلف علاقوں میں حکومت کی جانب سے ضرورت مندوں میں گندم کے آٹے کی مفت تقسیم کے دوران اس قسم کے کئی المناک واقعات رپورٹ ہوئے اور تقسیم کے مقامات پر بھگدڑ میں 10 کے قریب افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا بحیثیت قوم ہم ضرورت مندوں میں آٹا، زکوٰۃ اور دیگر صدقات کی تقسیم کا بھی مناسب انتظام نہیں کر پا رہے؟

اس قسم کے سانحات سے بچنے کے لیے عوام میں خیرات تقسیم کرنے والوں کے لیے قواعد و ضوابط بنانا یا مفت آٹے کی تقسیم کا معقول انتظام کرنا حکومت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دیتے، جبکہ اس حوالے سے اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اگر حکومت تھوڑی سی کوشش کرے تو ملک کے مستحق لوگوں کو مفت آٹے یا دیگر امداد کی فراہمی کے لیے ایک بہتر طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ موثر قواعد و ضوابط بنانے اور نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ نجی خیراتی اداروں کے لیے بھی صدقہ کی تقسیم سے قبل مناسب انتظامات کرنے کا پابند بنایا جا سکتا ہے تاکہ بھگدڑ اور دیگر المناک واقعات سے بچا جا سکے۔

اس ڈیجیٹل دور میں حکومت کے لیے غریب اور نادار پاکستانیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا اور انہیں روایتی طریقے سے راشن یا دیگر خیرات کی تقسیم کے بجائے ان کے گھر گھر پر ریلیف فراہم کرنا بہت آسان ہے۔ حکومت کو یہ ڈیٹا فوری طور پر اکٹھا کرنا چاہیے اور اسے ملک کی فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہیے۔

اس ڈیٹا کی مدد سے نہ صرف غریبوں کو ان کے دروازے پر ریلیف فراہم کیا جا سکتا تھا بلکہ انہیں تقسیم کے مقامات پر ایک ایک کر کے بلایا جا سکتا تھا تاکہ وہ خیرات خوش اسلوبی سے ان کے حوالے ہوسکے۔ صدقہ جاریہ کی تقسیم کے روایتی انداز میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اکثر مستحق افراد محروم رہ جاتے ہیں، جبکہ جو کم مستحق ہوتے ہیں ان کو زیادہ مل جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ کراچی میں بھگدڑ جیسے سانحات میں نہ صرف قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ دنیا میں ایٹمی ملک پاکستان کا امیج بھی خراب ہوتا ہے۔ بہت ہو چکا، حکومت کو کل کے سانحہ سے سبق سیکھنا چاہیے اور مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھانے چاہئیں۔