حال بے حال کراچی

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک مثال ہے کہ اگر کسی خاتون کا سلیقہ جانچنا ہے تو اس کے باورچی خانہ اور باتھ رومز کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ بیشتر گھروں میں دیکھا جاتا ہے کہ خاتون خانہ کی توجہ محض سجاوٹ اور صفائی صرف گھر کے ڈرائنگ رومز تک محدود ہوتی ہے ۔

یہی اصول شہروں اور ملکوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ اگر کسی شہر کا اصل رنگ دیکھنا ہو تو وہاں کی صفائی ستھرائی اور ٹریفک کا نظام دیکھیں کیونکہ یہ دونوں چیزیں کسی بھی شہر کا آئینہ ہوتی ہیں اور آئینہ وہ واحد شے ہے جو ہر چیز واضح کردیتا ہے۔

آئینے کی بات کی جائے تو اگر عروس البلاد کراچی کوماضی کے آئینے سے دیکھیں تو آج روشنیوں کے شہر کراچی شہر کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ شہر جو کبھی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے آج کسی اجڑی بیوہ کا منظر پیش کرتا ہے۔

وہ کراچی جس کی نفاست اور آداب نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنے مثال آپ تھے آج بدامنی اور برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ آج کوئی ایسا جرائم و برائی نہیں جو اس شہر میں نہ ملے اور شومئی قسمت کہ قانون نام کی دیوی نجانے کون سی نیند میں ہے جو بیدار ہوکر نہیں دیتی۔

کراچی کو مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے بعد ملک کے پہلے دارالحکومت کا اعزاز بھی حاصل رہا جبکہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کا اعزاز بھی کراچی کوہی حاصل ہے۔ ماضی میں روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی آج عدم توجہی کی وجہ سے کی بدحالی کا شکار ہے۔ گندگی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں نجانے کیوں اس شہر کا مقدر بن چکی ہیں۔

دنیا کے مہذب ممالک میں ٹریفک کا نظام اُس ملک کے رہنے والوں کے طریقہ زندگی کو اجاگر کرتا ہے تاہم کراچی ایسا بدقسمت شہر ہے جہاں ٹریفک کا کوئی نظام نظر نہیں آتا اور سونے پر سہاگہ وی آئی پی موومنٹ کی وباء کے باعث بدترین ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔

ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے دردر بھٹک کر ووٹ مانگنے والوں کو بعد میں انہی عوام سے کیسا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جو اپنے چوگرد حفاظتی حصار باندھ لیے ہیں۔

سیاستدانوں کی بے حسی کا اندازہ اس بات یہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایمبولینس میں لوگ تڑپتے مرجاتے ہیں اور عورتیں سرراہ بچوں کو جنم دیتی ہیں لیکن ان حکمرانوں کی شاہی سواری کے انتظار میں گھنٹوں سڑکوں پر انتظار کی سولی پر لٹکنے والے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

ماضی کے خوبصورت شہر کراچی پر یہ ظلم روزانہ ان حکمرانوں کی جانب سے ڈھایا جاتا ہے، ان کو کوئی فکر نہیں کہ اس شہر کے کتنے مسائل ہیں، ملک کو سب سے زیادہ ریوینیو دینے والے شہر سے بس ان کو اتنی غرض ہے کہ یہ کتنا پیسہ دے رہا ہے باقی اس شہر کے لوگ بھلے سڑک پر ہی کیوں نہ رُل جائیں اس سے ان کو غرض نہیں ہے۔

ماضی میں کراچی میں ٹرام چلا کرتی تھی اور ایک شاندار ٹرانسپورٹ سسٹم تھا لیکن افسوس کہ کراچی کا حال اتنا بدحال ہوچکا ہے کہ اس شہر کے لوگوں کو بہتر ٹرانسپورٹ تک میسر نہیں ہے یہ وہ شہر بن چکا ہے جہاں چنگ چی رکشوں کا شور ہروقت کانوں میں گونجتا رہتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب دوڑ رہا ہے، اس شہر کا ٹرانسپورٹ سسٹم تقریباً ختم ہوچکا ہے اور چہار سو چنگ چی رکشوں کا شور ماحول کو مزید کشیدہ بنارہا ہے۔

کراچی میں ماضی میں راتوں کو سڑکوں کی دھلائی ہوا کرتی تھی اور بلدیہ عظمیٰ کا عملہ پورے شہر کی سڑکوں کو صاف کیا کرتا تھا لیکن حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے آج یہ شہر گندگی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور بدقسمتی تو یہ ہے کہ چند سالوں سے شہر کی حالت دیکھ کر واقفان حال شہر کا نام کراچی سے کچراچی بھی تجویز کرچکے ہیں۔

عدالت کے واضح احکامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کراچی میں گٹکا کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے اور ہر گلی اور سڑک گٹکے کھانے والوں کی مہارت کا آئینہ دار ہے۔ آج جہاں نظر دوڑائیں پان اور گٹکے کے نشانات آپ کا منہ چڑائیں گے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہر محفل میں مسائل اور گندگی کا رونا رونے والے خود اس شہر کو گندہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوسروں پر انگلی اٹھانے یا توقع کرنے کے بجائے خود کو تبدیل کریں کیونکہ جب تک ہم خود کو تبدیل نہیں کرینگے معاشرے میں تبدیلی نہیں آئیگی۔

وہ کیا مشہور شعر ہے

رونا نصیب میں ہے تو اوروں سے کیا گلہ

اپنے ہی سر لیا کوئی الزام رو پڑے.

Related Posts