افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خواتین کے مظاہرے کی کوریج پر گرفتار ہونے والے صحافیوں پر پولیس کی حراست میں مبینہ طور پر تشدد کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق متعلقہ روزنامے کے ایڈیٹر اِن چیف ذکی دریابی نے سوشل میڈیا پر اپنے 2 رپورٹرز کی تصاویر شائع کی ہیں جن کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں صحافیوں کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی (رائٹرز) کا دعویٰ ہے کہ دونوں صحافیوں کے چہروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کے متعلق پوچھنے پر طالبان کے عبوری وزیر نے صحافیوں کی شناخت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں پر کیے گئے کسی بھی حملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔
متعلقہ روزنامے کے ایڈیٹر ان چیف کا جمعرات کے روز کہنا تھا کہ افغان صحافیوں پر تشدد سے میڈیا کو ہولناک پیغام دیا گیا ہے۔ہمارے 5 صحافیوں کو حوالات میں 4 گھنٹوں سے زیادہ بند رکھا گیا جن میں سے 2 پر بے رحمی سے تشدد کیا گیا۔ صحافیوں کو ہسپتال داخل کرادیا گیا ہے۔
ڈاکٹرز نے تشدد کا شکار صحافیوں کو 2 ہفتوں تک آرام کی ہدایت دے دی۔ طالبان کے گزشتہ دور 1996 سے لے کر 2001 تک میڈیا کو آزادی نہیں دی گئی جبکہ اگست کے دوران افغانستان پر مکمل قبضے کے بعد سے میڈیا پر تشدد کے واقعات رپورٹ کیے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اثاثے منجمد کرنا افغان عوام کو بھوک کی طرف دھکیل سکتا ہے۔اقوامِ متحدہ