جیڈی نائٹس اور نائٹ ٹیمپلر نے جو عظیم ترین کردار ادا کیا، وہ حقیقی دنیا میں اپنا وجود نہیں رکھتا، تاہم یہ تصوراتی کردار ہمیشہ سے تاریخ میں، حتیٰ کہ موجودہ دور میں بھی ایک نمونے یا مثال کے اعتبار سے موجود رہا ہے۔ یہ سمجھنے کیلئے ہمیں جہانگیر خان ترین کے ساتھ جیدی ننائٹس اور نائٹس ٹیمپلر کا موازنہ کرنا ہوگا کیونکہ اسٹار وار کے ان افسانوی کرداروں اور جہانگیر خان ترین میں نمایاں مماثلت پائی جاتی ہے۔
ان کا مشن
ٹیمپلرز اور جیڈیز نے قسم کھائی تھی کہ معصوموں کی حفاظت کریں گے، ان کا مشن تھا کہ یا تو 2 گروہوں کا تنازعہ حل کیا جائے یا پھر لوگوں کیلئے پر امن اور مقدس سرزمین حاصل کی جائے، جبکہ جہانگیر خان ترین ایسی سیاسی جماعت سے منسلک ہیں جس کا باضابطہ مقصد مدینہ کی ریاست کا قیام ہے۔ فلاحی ریاست اور پاکستان میں مذہبی امتیاز ختم کرنے کیلئے پارٹی اپنے آپ کو یکساں اسلامی جمہوریت کی حمایت کرنے والی مگر غیر جمہوری تحریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہانگیر ترین نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے مابین تنازعات کے حل کیلئے ایک میڈیم کا کردار ادا کیا ہے جس سے سب واقف ہیں۔
غور کیجئے تو ٹیمپلرز اور جیڈیز کا ان کے مشن پر یقین انہیں اپنی موت کی طرف لے جاتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے مشن میں جہانگیر ترین کا اپنے مشن پر یقین سیاسی شہادتوں کا باعث بنتا ہے۔
جنگجو کا کردار
آگے بڑھ کر ٹیمپلرز اور جیڈیز نے بہت ہی ہنر مند اور خوفناک جنگجو بن کر بہت تیزی سے شہرت حاصل کی۔ یہی جہانگیر خان ترین کا معاملہ ہے جو پی ٹی آئی کے سیاسی منتظم، منصوبہ ساز، ہینڈلر، ذہن ساز، فکسر اور تنازعات کا سراغ لگانے والے قرار پائے۔ وہ ایسے معاملات پر بھی عمران خان کے مقتدر، مشیر اور قریبی دوست تھے جو ان کی پارٹی کے عہدے سے بھی باہر ہوں۔ بظاہر پی ٹی آئی کے قائد عمران خان ہیں لیکن جہانگیر ترین نے یہ معاملات سنبھالے اور چلائے۔ ٹیمپلرز اور جیڈیز اپنی جسمانی و ذہنی طاقت کے باعث جنگجو تھے لیکن جہانگیر ترین اپنی مالی و ذہانت کی طاقت کے ساتھ جنگجو ٹھہرے۔
ہیرو یا ولن؟
چونکہ ٹیمپلرز اور جیڈیز مشن ایک مقدس سرزمین حاصل کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کیلئے ہیرو قرار پایا لیکن بنیادی طور پر ٹیمپلرز اور جیڈیز اچھے لوگ نہیں تھے کیونکہ ٹیمپلر سارجنٹ جسے محاصرے سے فرار ہونے والے جہاز کے مسافروں سے رقم وصول کرنے کے کام سے برخاست کردیا گیا تھا، ایک بدنامِ زمانہ قزاق بن گیا، یعنی یہ بیک وقت ہیرو اور ولن دونوں تھے۔یہ کہاوت کہ ایک آدمی کا ہیرو دوسرے کیلئے ولن ہوسکتا تھا، شاید جہانگیر خان ترین پر ہی صادق آسکتی ہے۔ پاکستان تحرک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف اپوزیشن، فوج اور قانون سازوں کی وفاداریوں کو ‘خریدنے’ کیلئے گھومتے پھرتے جہانگیر ترین ایک ہیرو تھے جو سپریم کورٹ کے ذریعے تاحیات نااہل ہوئے، پھر بھی اپنی جماعت کے مشن کو پورا کرنے کیلئے 24 گھنٹے کام میں مصروف رہتے ہیں۔
جہانگیر خان ترین کے بارے میں حالیہ سیاسی منظر نامے کے مطابق عوام کا یہ خیال ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ریڑھ کی ہڈی کھو بیٹھی ہے لیکن بڑے کھلاڑی جانتے ہیں کہ مستقبل میں کچھ اہداف کے حصول کیلئے یہ صرف ایک سیاسی تبدیلی کہی جاسکتی ہے۔ جاوید ہاشمی اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ جب انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تو ایک عام آدمی یہ سمجھا کہ انہوں نے سابقہ سیاسی پارٹی کے ساتھ دھوکہ دہی کی لیکن اب تصویر واضح ہوچکی ہے کہ انہیں پلانٹ کیا گیا تھا۔ ترکی کے مشہور ڈرامہ سیریل ارتغرل غازی کی مثال اپنے سامنے رکھیں تو یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ جب انتخابات کی بات کی جائے تو 2 بھائی صرف کسی کو بے نقاب کرنے اور اہداف کے حصول کیلئے الگ ہوجانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ارتغرل سیریز میں جب قبیلے کی قیادت کا انتخاب کیا جاتا ہے جو سلیمان شاہ کا بیٹا تھا تو گنڈوگڈو والد کے خلاف الیکشن لڑتا ہے لیکن جب قبیلے میں فیصلہ سازی کا دن آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ قیادت سلیمان شاہ کے ہاتھ میں رہنی چاہئے۔ حقیقت میں یہ ارتغرل کا کوئی اور منصوبہ ہوتا ہے۔ گنڈوگڈو اپنے چچا کردگلو کو بے نقاب کرنے کیلئے چال چل رہا ہوتا ہے۔ جہانگیر خان ترین نہ صرف جہانگیر ترین ہی ہیں بلکہ وہ پی ٹی آئی کی گنڈوگڈو جیسی سیاسی کہانی کا مرکزی کردار بھی ہیں جو آج کل جیڈی اور نائٹ ٹیمپلرز جیسے مشن پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔