اسرائیلی تاریخ کی انتہائی دائیں طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسرائیل کے نئے عرب اتحادیوں کے لیے ایک مشکل صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
انہیں اب اسرائیل کی انتہائی یہودی قوم پرست حکومت کے ساتھ معاملات کرنے ہوں گے۔ ایسے میں ‘فلسطین کاز’ کے لیے محض زبانی جمع خرچ تک باتیں رہ جائیں گی۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کی اس نئی اور تیکھی قوم پرست کابینہ نے پچھلے ہفتے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں شدت پسند دائیں بازو کی جماعتیں شامل ہوئی ہیں۔ جو مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل کے ساتھ جبری الحاق چاہتی ہیں۔ جبکہ فلسطینی عوام ایک طویل عرصے سے اس مغربی کنارے کو اپنی آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ بنانے کے لیے اسرائیلی قبضے سے واگزار کرانا چاہتے ہیں۔
یہ پیچیدہ صورت حال ان چار عرب ریاستوں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ چاروں عرب ملکوں نے دو سال قبل اسرائیل کے ساتھ اپنے معاملات کو’ نارملائیز’ کرنے کے نام پر مکمل سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ اب انہیں اپنے فلسطینیوں کی آزادی کی آشاؤں کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ اپنی نئی شراکت داری کے معاملے میں ایک توازن پیدا کرنا ہوگا۔
یہ ضرورت ان حالات میں درپیش ہے جب متحدہ عرب امارات ، خلیج کے تجارتی اور سرمایہ کاری کے مرکز کی صورت اختیار کیے ہوئے ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس نے 2020 میں پہلے عرب ملک کے طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی طرف قدم اٹھایا تھا۔ اس وقت بھی یہودی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں امارات کی یہی سوچ تھی کہ یہ دیرینہ سلگتا ہوا مسئلہ کو اسرائیل کو حل کرنا چاہیے۔
نیتن یاہو کا کہنا یہ رہا ہے کہ اس بارے میں اسرائیلی پالیسی پر بطور وزیر اعظم اسرائیل ان کی رائے حتمی ہو گی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع کے حق میں کمٹڈ ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کے قطعا خلاف ہیں۔
نیتن یاہو کے اس حکومت کے لیے اہم اتحادیوں میں بین گویر شامل بھی ہے جو ‘کہانے’ کے زیر قیادت ایک مسلح یہودی تنظیم کا رکن رہا ہے۔ دہشت گردی اور عرب دشمنی کی وجہ سے امریکہ نے مذکورہ تنظیم کو اپنے ہاں بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔
بین گویر نے منگل کے روز مسجد اقصیٰ میں اپنے مسلح اسرائیلی محافظین کے ساتھ جا کر فلسطینی عوام کو اشتعال دلایا اور اپنے لیے دنیا بھر سے مذمت کو دعوت دینے کا سامان کر دیا۔ یہ جگہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک ‘فلیش پوائنٹ’ ہے۔ جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔
نیتن یاہو کے اتحادوں میں ایک اور اہم نام بیزلیل سموتریش کا ہے۔ یہ انتہائی دائیں بازو کی یہودی جماعت ‘ مذہبی صہیونیت پارٹیبیزلیل سموتریش’ کا سربراہ ہے۔ یہ بھی بین گویر کی طرح مغربی کنارے ہی نہیں آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے سے بھی فلسطینیوں کو دست بردار کرانے کے پختہ ایجنڈے پر ہے۔ خود یہودی بستی کا رہنے والا ہے اور مغربی کنارے کا اسرائیل سے جبری الحاق چاہتا ہے۔
خلیج اسرائیل امور کے ماہر سعودی تجزیہ کار عزیز الغشیان کے مطابق ‘اس صورت حال میں عرب امارات اور بحرین دونوں اسرائیل کی اس حکومت کو اپنی ترجیح کے طور پرنہیں دیکھیں گے۔ یقینا یہ نئی حکومت اسرائیل کے ساتھ ان کے حالیہ ‘نارملائزڈ ‘ تعلقات کو بھی آزمائش میں ڈال دے گی۔ اگر اس نئی حکومت کی وجہ سے کوئی تصادم والی صورت بنتی ہے تو امارات اور بحرین کو بھی دباو کے تحت کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔’
عزیز الغشیان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر کے ایک طرح سے ایک بڑی سیاسی سرمایہ کاری کر دی ہے۔ یہ سب معاہدہ ابراہم کے تحت کیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ حضرت ابراہم کے نام سے ہے جن کا مسلمان، یہودی اور مسیحی تینوں ایک جیسا احترام کرتے ہیں۔ اس لیے نہیں لگتا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کسی تصادم کے دوران بھی یہ معاہدات کو توڑ سکیں گے۔
امارات کی طرف سے اسرائیل کے لیے سفارتی پیش رفت سے پہلے عرصے تک اسرائیل کے ساتھ سمجھداری کے اہم تجارت اور ٹیکنالوجی سے متعلق تعلقات کو روکے رکھا ہے۔ تاکہ ہنگامہ خیز مشرق وسطیٰ میں اماراتی بادشاہت کو استحکام کی تصویر اور شناخت مل جائے ۔
اسرائیل میں نئی پیش رفت کے بارے میں اماراتی حکام فی الحال تبصرہ کرنے کو آمادہ نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں نے ابھی ماہ دسمبر کے دوران ہی جامع اقتصادی شراکت داری پر مبنی معاہدات کی توثیق کی ہے۔ یہ تجارتی پیش رفت نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی الیکشن میں حالیہ جیت کے بعد سامنے آئی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ یاہو اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان وسیع البنیاد معاہدات چاہیں گے۔
مشترکہ خوف جو کہ سبھوں کو ایران کی طرف سے ہے۔ اس نے بھی ان مشترکہ معاہدوں کو مضبوط کرنے کا جواز فراہم کر رکھا ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ کی سلامتی کو موجود ایک خطرہ ہے۔ اس لیے یہ ممالک اپنے تعلقات کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔
امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے نیتن یاہو کو جیت پر مبارک باد دی اور اپنی امیدوں کااظہار کیا ‘دونوں ملک شراکت داری اور امن کے راستے پر آگے بڑھیں گے۔’
بحرین کے اسرائیل کے لیے سفیر خالد الجلامہ نے اپنے ملک کی ‘نارملائزیشن’ کے حوالے سے ‘کمٹمنٹ’ کا اعادہ کیا۔ اس سلسلے میں بحرینی سفیر نے 19دسمبر کو کیے گئے اپنے ٹویٹ میں کہا ‘شاہ بحرین نے دانشمندانہ ہدایت کی تھی کہ ہم امن اور خوشحالی کی خواہش رکھتے ہیں، ابراہم معاہدے نے اس امید کو بحال کیا ہے اور بات چیت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔’
بین گویر نے یکم دسمبر کو اماراتی سفارتخانے کی طرف سے ہوٹل میں دیے گئے استقبالیے کے دوران ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا وہ بھی ترقی میں دلچسپی رکھتے ہیں حتیٰ کہ قریبی تعلقات میں بھی۔
بین گویر نے اسرائیلی اخبار ‘ہیوم’ کے توسط سے مزید کہا ‘ یہ ایک ثبوت ہے کہ کوئی بھی رعایتیں دیے بغیر امن لا سکتا ہے، بغیر سر جھکائے بھی امن قائم کر سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ صرف امن ان لوگوں کے درمیان ہو جو ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھتے ہیں۔ ‘