اسلام آباد میں مندر کاتنازعہ پاکستان کی ساکھ متاثر کرسکتا ہے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر پر غیرضروری تنازعہ پیدا ہوگیا ہے، مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لئے جس اقدام کی تعریف کرنی چاہئے تھی وہ تنازعہ میں تبدیل ہوگیا ہے اور مندرکی تعمیر روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس منصوبے کے لئے عوامی فنڈز اور اراضی کی الاٹمنٹ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرکے مندر کی تعمیر روکوا دی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس منصوبے کے لئے 100 ملین روپے کی منظوری دی تھی ۔

20ہزارمربع فٹ پر تعمیر کیے جانے والے مندر پر بہت سے لوگ اس بات پر تشویش میں مبتلا تھے کہ اسلام آباد میں چند سو ہندو آباد ہیں اورسید پور میں پہلے ہی ایک مندر موجود ہے۔

یہاں تک کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے بھی مندر کی تعمیر کیخلاف آواز اٹھائی ہے اور انہوں نے اسلام آباد میں نیا مندر بنانے کی مخالفت کی۔

پاکستان کا آئین اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ مذہبی امتیازی سلوک اور عدم رواداری کی مثالوں کے باوجود ریاست کو ان کے حقوق اور آزادی کا تحفظ یقینی بنانا چاہئے۔ انہیں اپنی عبادت گاہوں کی زیارت اور تعمیر کرنے کی آزادی ہے۔

اسلام آباد میں ہندو برادری میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ بہت سے افراد سندھ اور بلوچستان سے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے اسلام آباد منتقل ہوئے ہیں اس لئے ایک نئے مندر کی ضرورت بڑھ رہی تھی کیونکہ آزادی کے بعد سے کوئی بھی نیا مندر تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔

اقلیتوں کے تحفظ کے لئے حکومت نے پیش قدمی کی ہے اور مندروں کی تزئین و آرائش کرکے ہندوؤں کے حوالے کرنے کا منصوبہ ہے۔

کرتار پور راہداری بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ تھی جس کا سکھ برادری نے خیرمقدم کیا۔ اقلیتی حقوق کے حوالے سے پاکستان کاریکارڈ ابھی بھی مایوس کن ہے اور اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک اور تعصبات کو ختم کرنے کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

مندر کی تعمیر پر ہونے والی تنقید مکمل طور پر غیرضروری ہے ،اس اقدام کو روکنے کی کوششوں سے ہماری شبیہ اور انسانی حقوق کا ریکارڈ خراب ہوگا، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کو مکمل حقوق دیئے جائیں۔

Related Posts