اسلام آباد ائیر پورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گرجائے گا، چیف جسٹس

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد ایئر پورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر سے بد عنوانیوں کا خاتمہ نہ ہوسکا
اسلام آباد ایئر پورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر سے بد عنوانیوں کا خاتمہ نہ ہوسکا

کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پروازوں کی تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اسلام آباد ائیر پورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گرجائے گا، حکومت دس دفعہ اس کی قیمت ادا کرچکی ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پروازوں کی تاخیر اور مسافروں کو درپیش مسائل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈائریکٹر سول ایوی ایشن کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہارکیا۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل ڈائریکٹر سے مسافروں کو سہولیات سے متعلق پوچھا تو وہ عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہےجس پر انہوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر کو فوری پیش ہونے کا حکم بھی دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پروازیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں اور مسافروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے،کون جواب دے گا،آپ کوکچھ پتہ ہی نہیں ہے، اتنی بات آپ کو سمجھ نہیں آرہی آپ کیا ڈائریکٹر بنیں گے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کہ ائیر پورٹس پر مسافر زمین پر پڑے ہوتے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، مسافروں کے ساتھ سول ایوی ایشن والے کیا کرتے ہیںسب معلوم ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چرس اور کرنسی کی ریکوری ہوتی ہے تاہم اس کی کوئی ویڈیو ایئرپورٹس پر نہیں بنتی، ہوائی اڈون پر پر کرنسی دبا کر اسمگل ہورہی ہے،صرف بھاری تنخواہ لینا ہی آپ کا کام نہیں، جب کچھ پتہ ہی نہیں تو یہاں کیوں آئے۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس، سپریم کورٹ نے کمسن گھریلو ملازمہ کے ملزمان کو ریلیف دے دیا

جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ اگر کوئی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو مسافروں کو ٹھہرانے کے لیے کوئی جگہ ہے؟ اس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس حوالے سے متعلقہ ائیر لائن کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

عدالتی طلبی پر سول ایوی ایشن کے ایڈیشنل ڈائیریکٹر جنرل تنویر اشرف بھٹی عدالت پہنچے، عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف دفتر میں بیٹھ کر گَدی گرم کررہے ہیں، اسسٹنٹ اور چپراسی کو بھیج دیتے ہیں۔

عدالت نے ایڈیشنل ڈی جی سول ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ آپ کو عدالتی احکامات کا نہیں پتہ تھاجس انہوں نے جواب دیا کہ مجھے عدالتی احکامات کا صبح پتہ چلا ہے، ہم نے کافی اقدامات کرلیے ہیں۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ لوگ ہوائی جہاز کا سفر وقت بچانے کے لیے کرتے ہیں ، فلائٹ منسوخی پر کیا دائیگی کیا جاتی ہے؟ جس پر ایڈیشنل ڈی جی کاکہنا تھاکہ یہ کام ائیر لائن نے کرنا ہوتا ہے وہ مسافروں کو کرایہ واپس کرتے ہیں۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ائیر پورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گرجائے گا، حکومت دس دفعہ اس کی قیمت ادا کرچکی ہے، جرائم کی ڈیل ائیر پورٹس پر ہوتی ہے، کوئی کسی کو روکنے والا نہیں، ملک سے فارن کرنسی باہر جا رہی ہے، ائیرپورٹ ریکٹ ہے، دنیا بھرکا اسلحہ تک آتا ہے۔

عدالت نے پروازوں میں تاخیر کے باعث مسافروں کو سہولت دینے کے متعلق اور تمام ائیر پورٹس کی مرمت سے متعلق بھی رپورٹ 2 ہفتوں میں طلب کرلیں۔

Related Posts