آئی ایم ایف ریلیف اور شرح سود میں کمی، کیا پاکستانی معیشت مستحکم ہورہی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ روز پاکستان کے لیے دو بڑی خوشخبریاں آئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ آئی ایم ایف نے ایک سال کے لیے پاکستان سمیت 76 ممالک کے قرضے منجمد کردئیے جبکہ دوسری یہ تھی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان  نے شرحِ سود میں 2 فیصد کمی کردی۔

اسٹیٹ بینک کے فیصلے کے بعد شرحِ سود مزید کم ہو کر 9 فیصد ہو گئی جبکہ مرکزی بینک کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران 25 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان تمام مثبت تبدیلیوں کے بعد آج ہم اِس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے کہ کیا پاکستانی معیشت استحکام کی طرف جا رہی ہے؟

معاشی استحکام کیا ہے؟

کسی بھی ملک میں معاشی استحکام سے ایک عام تصور یہ لیا جاتا ہے کہ ملک امیر ہو اور عوام عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہوں، تاہم ہماری رائے میں اگر معاشی استحکام کا جائزہ لینا ہی مقصود ہے تو کسی ترقی پذیر ملک کے لیے اس کے معاشی اشاریوں کا مثبت ہونا اور عوام کا مہنگائی سے دور ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے معاشی استحکام سے مراد اگر عیش و عشرت اور ٹھاٹھ باٹھ لیا جائے تو یہ معاشی استحکام کی ایک غیر حقیقت پسندانہ تعریف ہوگی جس پر پورا اترنا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ 

اس لیے معاشی استحکام سے مراد صرف یہی لے لیا جائے کہ عوام کو ضروریاتِ زندگی کی اشیاء مناسب داموں پر دستیاب ہوں، ملک کے مالی وسائل قرضوں کی ادائیگی کے لیے عوام پر ٹیکسز کا بوجھ نہ ڈالتے ہوں اور شرحِ سود اتنی کم ہو کہ کاروباری برادری آسانی سے کاروبار کرسکے۔ ملک کے جی ڈی پی سے عوامی مسائل کے حل میں حکومت کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

معاشی استحکام سے مراد یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ملک کے معاشی اشاریے یعنی درآمدات و برآمدات میں توازن، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام آئے۔ پٹرول، ڈیزل اور پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ سونے کی قیمتیں بھی اتنی کم ہوں کہ عوام تھوڑی بہت جدوجہد اسے حاصل اور استعمال کرسکے۔

عوام کو روزگار کی فراہمی ، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کو قومی دھارے میں لانا ایک ایسی حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے جو ملک میں معاشی استحکام چاہتی ہے۔غریب افراد کو متوسط اور متوسط کو امیر ہونے کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ اگر یہ جان لیا جائے تو کسی بھی ملک کے معاشی استحکام کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ 

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کاروباری برادری کے لیے آئی ایم ایف کے اقدام  اور شرحِ سود میں کمی جیسی خبریں سرمایہ کاری کیلیے ایک سازگار ماحول فراہم کر رہی ہیں جس سے ملک کی موجودہ معاشی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہوگی، تاہم کورونا وائرس کے باعث ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران عوام عیش و آرام اور معاشی استحکام کی بجائے غربت کی طرف سفر کر رہے ہیں۔

کسی بھی ملک میں معاشی استحکام صرف معاشی اشاریے نہیں لاتے بلکہ اس میں زمینی حقائق، حکومتی پالیسیاں، سیاسی قیادت اور حزبِ اختلاف کے بیانات، ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف حکومت کا طرزِ عمل اور کساد بازاری یا مثبت رجحانات  پیدا کرنے والے دیگر بے شمار عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ملک کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف وزیرِ اعظم عمران خان کو ملک کے قرضے ادا کرنے ہیں جن میں آئی ایم ایف نے 1 سال کا ریلیف دے کر خوشخبری سنائی ہے تو دوسری جانب دیہاڑی دار مزدور طبقہ بے روزگار ہو کر گھروں میں بیٹھ گیا ہے۔ کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے اور دفاتر مکمل طور پر بند ہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سمیت ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں کمائی بند ہونے کے ساتھ ساتھ اخراجات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔

بے روزگاری اور کساد بازاری 

آج اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے زبردست رجحان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے منجمد کرنے اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرحِ سود میں کمی کی خبریں کتنی بڑی ہیں، تاہم ملک میں بے روزگاری ، کساد بازاری اور مندی ختم نہیں ہوئی۔ جن لوگوں نے مخیّر حضرات بن کر عوام کی مدد شروع کی تھی، ان کی اکثریت نے ہاتھ واپس کھینچ لیے ہیں۔

ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ 30 اپریل تک صوبہ سندھ میں اور 25 اپریل تک پنجاب میں لاک ڈاؤن نافذ ہے جس میں آگے چل کر مزید توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے باعث روزگار بند ہونے سے متوسط طبقہ تنگی سے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے جبکہ غریب عوام آج ہاتھ پھیلاتے نظر آ رہے ہیں۔

سہارا دینے کی کوششیں 

ایک طرف وزیرِ اعظم عمران خان کا احساس ایمرجنسی کیش پروگرام ہے جو ملک کے چاروں صوبوں میں عوام کو 12 ہزار روپے کیش فی کس دے رہا ہے جبکہ دوسری جانب سندھ حکومت کا کورونا ریلیف فنڈ ہے جس کے تحت عوام کی امداد کی جارہی ہے۔

وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ غریبوں کی امداد کے لیے فلاحی ادارے بھی پیش پیش ہیں لیکن ہم سب یہ جانتے ہیں کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اختلافات اور فلاحی اداروں کے محدود بجٹ کے پیشِ نظر عوام کی ضروریات کے لیے یہ امداد فی الحال ناکافی ہے۔

کیا معیشت مستحکم ہو رہی ہے؟

معاشی استحکام ایک بڑی اصطلاح ہے جس کی تعریف بے حد وسیع ہے۔ اس تعریف کو مدنظر رکھا جائے تو معیشت کے استحکام کی بجائے ہمیں یہ سوال کرنا چاہئے کہ ہمیں غربت سے نجات کب ملے گی؟ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کے اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔

 معاشی اشاریوں کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق ملحوظِ خاطر رکھنا اپنی جگہ اہم ہے، تاہم اشاریوں کی  بہتری حکومتی معاملات میں توازن اور سرکاری پالیسیوں میں اعتدال کا باعث بنتی ہے جو آگے چل  کر معیشت کے استحکام پر منتج ہوسکتی ہے۔فی الحال تو پاکستانی معیشت مستحکم نہیں ہوئی، لیکن معاشی استحکام کی ابتدائی منازل کی طرف پاکستان کا سفر جاری ہے۔

Related Posts