7 اکتوبر کو فلسطین کی آزادی کی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا، جس کے بعد اسرائیل انتقام کی آگ میں اندھا ہوکر غزہ پر چڑھ دوڑا اور چالیس دن گزرنے کے باوجود اس کا وحشیانہ انتقام ختم نہیں ہو رہا۔
حماس کے حریت پسندوں نے غزہ کی پٹی سے سرحد عبور کرکے اسرائیل میں گھس کر کارروائی کی، جس کے نتیجے میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے اور اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ایسے میں عرصے سے فائلوں میں دبا ہوا مسئلہ فلسطین پھر اجاگر ہوا اور لوگوں میں تجسس پیدا ہونے لگا کہ حماس کیا ہے؟ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا و برطانیہ کی عینک سے دیکھا جائے تو حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، مگر کیا اپنی زمین کی آزادی کیلئے لڑنے والے دہشت گرد ہوتے ہیں؟
حماس پر الزامات، کیا اسرائیلی فوج نے غزہ بندرگاہ کا کنٹرول سنبھال لیا؟
اگر ایسا ہے تو پھر برطانوی تسلط کیخلاف اپنے وطن کی آزادی کیلئے لڑنے والے وہ امریکی بھی دہشت گرد ہوں گے، جن کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں امریکا ایک آزاد و خود مختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں حماس کیا ہے؟:
حماس کیا ہے؟
حماس حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (اسلامی تحریک مزاحمت) کا مخفف ہے، اس کا قیام 1987 میں غزہ میں مقیم ایک فلسطینی پناہ گزین شیخ احمد یاسین نے پہلی انتفاضہ (فلسطینیوں کی وسیع پیمانے کی مزاحمت) کے دوران کیا۔
اس کے علاوہ حماس کی جڑیں 1920 کی دہائی میں مصر میں قائم ہونے والے سنی دنیا کے سب سے نمایاں گروپ اخوان المسلمین میں بھی پیوست ہیں۔ حماس سیاسی طور پر غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرتی ہے، جو تقریباً 365 مربع کلومیٹر (141 مربع میل) کا علاقہ ہے جو تئیس لاکھ سے زیادہ افراد کا گھر ہے لیکن اسرائیل نے اس کی پندرہ سال سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے سربراہ صدر محمود عباس کی وفادار الفتح فورسز کے ساتھ ایک مختصر جھڑپ کے بعد حماس 2007 سے غزہ کی پٹی میں برسراقتدار ہے۔
حماس کی اصولی پوزیشن کیا ہے؟
PLO کے برعکس حماس اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتی لیکن 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کو قبول کرتی ہے۔
حماس کے جلاوطن لیڈر خالد مشعل نے 2017 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم فلسطینیوں کی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑیں گے، چاہے حالیہ دباؤ کچھ بھی ہو اور قبضہ کتنا ہی لمبا ہو۔
حماس 1990 کی دہائی کے وسط میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان طے پانے والے اوسلو امن معاہدے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔
وہ رسمی طور پر اپنی سرحدوں کے اندر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پرعزم ہے۔ اس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور اسرائیل دونوں میں اسرائیلی فوجیوں، آباد کاروں اور شہریوں پر حملوں کے ذریعے اس مقصد کیلئے جدوجہد کی ہے۔
حماس کو مکمل طور پر یا بعض صورتوں میں اس کے عسکری ونگ کو اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین، کینیڈا، مصر اور جاپان نے “دہشت گرد” تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
حماس کے حلیف اور حامی کون ہیں؟
حماس ایک علاقائی اتحاد کا حصہ ہے جس میں ایران، شام اور لبنان میں حزب اللہ گروپ بھی شامل ہے، جو مشرق وسطیٰ اور اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کی مخالفت کرتا ہے۔
حماس کے ساتھ غزہ کی پٹی میں دوسرا بڑا گروپ اسلامی جہاد ہے، یہ دونوں اکثر اسرائیل کے خلاف متحد رہتے ہیں اور غزہ میں مختلف مسلح گروپوں کے درمیان فوجی سرگرمیوں کو مربوط کرنے والے مشترکہ آپریشن روم کا دونوں حصہ ہیں۔
دونوں گروپوں کے درمیان تعلقات کچھ عرصہ قبل اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب حماس نے اسلامی جہاد پر اسرائیل کے خلاف حملے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
کیا حماس عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟
حماس کے سینئر ترجمان اسامہ حمدان نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے۔ تاہم حماس کے حالیہ حملوں میں عام اسرائیلی شہری بھی مارے گئے ہیں، مگر اس حوالے سے ہمدان نے اصرار کیا کہ ان کا گروپ صرف غیر قانونی بستیوں میں رہنے والے قابض یہودی آباد کاروں پر حملہ کرتا ہے، جو ان کے بقول جائز ہدف ہیں۔
اس حوالے سے ایک سوال پر حماس رہنما نے کہاکہ آپ کو قابض یہودی آباد کاروں اور عام شہریوں میں فرق کرنا ہوگا۔ آباد کار فلسطینیوں پر حملہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، تاہم ہم آباد کاروں کو مسلح اسرائیلی فوج کا حصہ سمجھتے ہیں، وہ عام شہری نہیں ہیں۔