دورِ حاضر میں عالمی برادری نے بالآخر زمین پر ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج کو سمجھنا شروع کردیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے 40 سربراہانِ مملکت کو ماحولیاتی سمٹ میں شرکت کی دعوت دی اور 2030ء تک کاربن کے اخراج کو نصف کرنے کا ہدف مقرر کیا جبکہ چینی قیادت نے کوئلے کی کھپت پر حدود قائم کی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ماحولیاتی مسئلے کے حل کو ترجیح قرار دیتے ہوئے پیرس معاہدے کو عہدۂ صدارت سنبھالتے ہی دوبارہ اختیار کیا تاہم آئندہ 10 برسوں میں کاربن اخراج کو 52 فیصد تک کم کرنا بے حد مشکل چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔اگر زمینی ماحول کوخوفناک موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانا ہے تو عالمِ انسانیت کو کوئلے اور پٹرولیم سے اپنا انحصار کم کرکے آلودگی سے پاک توانائی کی طرف آنا ہوگا۔
عالمیِ یومِ ارض کے موقعے پر ماحولیاتی سمٹ منعقد کی گئی۔ سب سے پہلے زمین کا عالمی دن 5 دہائیاں قبل منایا گیا، اس وقت سے لے کر اب تک آب و ہوا کے بحران میں مستقل اضافہ دیکھا گیا ہے کیونکہ آبادی میں کثیر اضافے اور بجلی کے دم پر چلنے والی معیشتیں دھواں پیدا کرنے والے ایندھن پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے امریکی کانگریس کو آگاہ کیا کہ اگر اراکینِ پارلیمان نے دھواں جنم دینے والے ایندھن کی تیاری کیلئے رعایت (سبسڈی) دینا بند نہ کی تو تاریخ قانون سازوں کو آب و ہوا کی تباہی پر جوابدہ ٹھہرائے گی۔
اگر ہم ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق سوچیں تو خاصی پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ زمین پر 50 ارب میٹرک ٹن سے زائد گرین ہاؤس گیسز ہر سال خارج کی جاتی ہیں۔ گیسز کا یہ اخراج ماحولیات کی ہنگامی حالت لانے کا باعث بنا جس میں گرمی کی لہر، سیلاب اورموسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑی تعداد میں عوام الناس کا ایک خطے سے دوسرے میں ہجرت پر مجبور ہونا شامل ہے۔ تاہم ماہرین کا یقین ہے کہ انسانیت کو بچانے کیلئے ابھی وقت ہے اور اگر عالمی برادری زمین کی حفاظت کرنے کیلئے کسی بھی وقت سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے تو وہ مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔
ماحولیاتی بحران پر بہت زیادہ جھوٹی معلومات بھی پھیلائی جارہی ہیں۔ ویکسین، صدارتی انتخابات اور کورونا وائرس پر ہونے والی آن لائن بحث و تمحیص سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد انتشارِ معلومات کا شکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ناقص معلومات شکوک و شبہات اور انکارِ اصلاح کا باعث بن سکتی ہے جیسا کہ عالمی برادری نے ٹرمپ کے دور میں مشاہدہ کیا۔ اب جو بائیڈن کا خیال ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی ایک حقیقی اور اہم مسئلہ ہے جس کے تدارک کیلئے ٹھوس کارروائی ضروری ہے۔
اکیلا امریکا عالمی ماحولیاتی بحران کے تدارک کیلئے دنیا کی رہنمائی کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا، جس کیلئے اسے دنیا کے سب سے بڑے آلودگی کے پیداکار چین کے تعاون کی ضرورت ہے جس نے عہد کیا ہے کہ 2060ء تک ماحول کو صاف و شفاف بنایا جائے گا۔ چین آلودگی سے پاک توانائی کی ٹیکنالوجی پر عملدرآمد میں دنیا کی قیادت کی اہلیت رکھتا ہے۔ ماحولیات میں تبدیلی کی کاوشیں ایسی توانائی کو سستا کرنے میں کار آمد ثابت ہوں گی اور دیگر ممالک بھی ماحولیات پر اہداف مقرر کرکے ان پر کام شروع کرسکیں گے۔ ماحولیاتی بحران پر مشترکہ اہداف پر عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ یہ بحران زمین اور اس پر بسنے والے تمام انسانوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔