جامعہ ہری پور میں ہراسانی کے 2واقعات کی عبوری رپورٹ سنڈیکیٹ اجلاس میں پیش

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی: جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے مدت ملازمت مکمل ہونے سے چند روز قبل اپنے تین سالہ دور میں کئے جانے والے کاموں پر سنڈیکیٹ کی تصدیق کے لئے اجلاس بلا لیا،اجلاس سے قبل ممبران کو بروقت ایجنڈا فراہم نہیں کیا گیا، ہراسانی کے معاملات پر ہراسانی کمیٹی کی رپورٹ رجسٹرار کو موصول ہو گئی۔

جامعہ ہری پور میں منگل کو سنڈیکیٹ کا 26واں اجلاس ہو گا جس میں سنڈیکیٹ کے سیکرٹری و قائم مقام رجسٹرارڈاکٹر شاہ مسعود خان ، ڈپٹی کنٹرولر اصغر علی، ایڈمن افسر محمد فاروق ، ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن میجر (ر) اقبال ، مینجمنٹ سائنسز ڈیپارٹمنٹ سے اسسٹنٹ پروفیسر قاضی شجاعت ، آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ سے لیکچرار حامد عصمت ، ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ سے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی رضا گورمانی ، فکلیٹی آف بیالوجیکل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر شفیق الرحمن ، بیسک اینڈ اپلائیڈ سائنسز فکلیٹی کے ڈین ڈاکٹر عابد فرید اور پرو وائس چانسلر ڈاکٹر ایوب ، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر نگہت شاہین کے علاوہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، سیکرٹری فنانس ،سیکرٹری ایچ ای ڈی ، ہائی کورٹ کے جج، نمائندہ ایچ ای سی کے علاوہ دیگر شریک ہونگے۔

سنڈیکیٹ اجلاس کے ایجنڈے میں دیگر کے علاوہ جامعہ کے اندر ہونے والے حالیہ دونوں ہراسانی کے واقعات کی عبوری رپورٹس پیش کی جائیں گی، گزشتہ روز جامعہ ہری پور کی ہراسانی کمیٹی کے ممبران ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اکیڈمک ڈاکٹر شفیق الرحمن، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صدف ایوب ،ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن میجر (ر)محمد اقبال اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر نگہت شاہین کی جانب سے رپورٹس قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر شاہ مسعود کو پیش کر دی گئی ہیں جو سیکرٹری کی حیثیت سے اجلاس میں پیش کریں گے۔

حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق اسسٹنٹ رجسٹرار (میٹنگ )کی جانب سے نوٹی فکیشن نمبر F.N:5(3)UOH/Reg/Meeting/2022/059جاری کیا گیا جس میں 4رکنی ہراسمنٹ انکوائری کمیٹی قائم کی گئی جس کا کنوینئر ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اکیڈمک ڈاکٹر شفیق الرحمن کو بنایا گیا جب کہ دیگرممبران میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صدف ایوب ،ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن میجر (ر)محمد اقبال اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر نگہت شاہین شامل ہیں، اس نوٹی فکیشن کے نوٹ میں عمل درآمدی کمیٹی کے کنوینئر ڈاکٹر عابد فرید کو لکھا گیا کہ وہ دونوں ہراسمنٹ کے کیسز کی مکمل دستاویزات اس کمیٹی کے کنوینئر ڈاکٹرشفیق الرحمن کے حوالے کر دیں۔

 کمیٹی کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ7مارچ کو صبح 10بجے کمیٹی کے کنوینئر ڈاکٹر شفیق الرحمن کے دفتر میں اجلاس کریں اور رپورٹ جمع کرائیں ، کمیٹی کی جانب سے پہلے کیس کی متاثرہ طالبہ کو بلایا گیا جس نے کمیٹی میں پیش ہو کرانکشاف کیا کہ مجھے دبائو میں لا کر درخواست واپس کرائی گئی ہے جبکہ میں آج بھی اسی درخواست پر قائم ہوں۔

کشمیری طالبہ کے حوالے سے کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ 4سے 5 موبائل نمبروں کا فارنزک کرایا جائے اور سی ڈی آر وغیرہ لی جائے تاکہ رپورٹ مستند بنائی جاسکے کیوں کہ پہلے کیس کی متاثرہ طالبہ کی طرح کشمیری طالبہ سے بھی درخواست واپس لینے کی درخواست سامنے آئی تھی، کمیٹی کی جانب سے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مطیع اللہ جان کو نوکری سے فارغ کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

حیرت انگیز طور پر اس کمیٹی میں غیر جانبدارانہ رویہ رکھنے والے ڈاکٹرعابد فرید کوشامل ہی نہیں کیا گیا کیونکہ انہوں نے سابقہ کمیٹی میں کشمیری طالبہ کی شکایت پر ڈاکٹر امجد خان کے حوالے سے غیر جانبدارانہ انکوائری شروع کی تھی جس کے تیور دیکھ کر وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے ان کو کمیٹی سے علیحدہ کردیا تھا۔

معلوم ہوا ہے کہ طالبات کے محتسب ہراسانی کشمالہ طارق کو لکھے گئے خط کے بعد محتسب ہراسانی کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط لکھ کر اس پر مزید وضاحت مانگی گئی جس کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر سے 14 مارچ تک اس پر رپورٹ طلب کرنے کی اطلاعات ہیں۔

دوسری جانب جامعہ ہری پور میں زیر تعلیم طالبات کے والدین کا خدشہ ہے کہ طالبات کے وفاقی محتسب ہراسانی کشمالہ طارق کو لکھے گئے خط میں بھی ڈاکٹر شاہ مسعود پر جانبدار ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کے باوجود ان کو قائم مقام رجسٹرار بنایا گیا ہے جو ڈاکٹر امجد کو بچانے کے لئے کمیٹی اور سنڈیکیٹ میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

جامعہ ہری پور کی جانب سے ضلعی پولیس آفیسر کاشف عباسی کو لکھے گئے خط میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جامعہ ہری پور میں کل 3 ہراسانی کے کیس رپورٹ ہوئے تھے، جن میں ایک کیس ثابت ہوا تھا، جس میں آفس اسسٹنٹ کو نکال دیاگیا تھا، اس کیس میں متاثرہ طالبہ کی درخواست کے ساتھ ہی آفس اسسٹنٹ کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیاتھا تاکہ انکوائری پر اثر انداز نہ ہوں، انکوائری رپورٹ آنے کے ساتھ ہی جبری رخصت پر گئے ہوئے آفس اسسٹنٹ کو نوکری سے فارغ کردیا گیا تھا جب کہ ڈاکٹر مطیع اللہ جان اور ڈاکٹر امجد خان کے کیس میں درخواستوں کے باوجود دونوں کو جبری رخصت پر بھیجا گیا نہ ہی ان کے خلاف منظم و آزادنہ انکوائری ہونے دی گئی ہے۔

معلوم رہے کہ جامعہ ہری پور میں ہفتہ 5مارچ کو کانووکیشن منعقد کیا گیا تھا جس میں ہری پور سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر پیدوار عمر ایوب خان اور صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن کامران بنگش بھی مہمان خصوصی تھے۔

اس تقریب میں انتظامیہ کی جانب سے صحافیوں کو منع کیا گیا کہ وہ ہراسانی کے معاملات پر سوالات نہیں کریں گے۔ اس حوالےسے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر انوارالحسن گیلانی اور قائم مقام رجسٹرار سے متعدد بار ان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔

Related Posts