رواں سال جو اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، شدید مہنگائی اور ہنگامہ خیز مالی اتار چڑھاو کے ساتھ نمایاں رہا ہے۔ اس سال شدید گرانی کی لہر نے غربت کی شرح میں بھی خاصا اضافہ کیا اور بڑے پیمانے پر لوگ غربت کے دائرے میں شامل ہوگئے۔
سال 2023 کے دوران سیاسی عدم استحکام بھی زوروں پر رہا، معاشی چیلنجوں میں بھی بے حد اضافہ ہوا، پیٹرولیم، گیس اور بجلی کی قیمتیں عام عوام کی دسترس سے بہت دور چلی گئیں، یوں مجموعی طور پر یہ پورا سال عوام پر سخت بھاری رہا ہے۔
گرانی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں اسی ایک سال کے دوران 50-70 روپے فی لیٹر تک بڑھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی گھریلو گیس کے نرخوں میں بھی تاریخی بڑھوتری دیکھی گئی، جس کی شرح تقریباً 300 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (پی بی ایس) نے سال کی آخری سہ ماہی میں قلیل مدتی افراط زر 40 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کیا، جس کی وجہ بھی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سامنے آئی ہے، اس سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ گرانی اور مہنگائی عام آدمی کی زندگی پر کس برے طریقے سے اثر انداز ہورہی ہے۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے معاشی پریشانیوں میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے۔ ڈالر جس برق رفتاری سے اونچی اڑان پر تھا، اس کے پیش نظر خطرہ تھا کہ پٹرول کی قیمت پانچ سو روپے لیٹر سے بھی کراس کرجاتی، مگر آخر میں نگران حکومت کے بعض سخت اقدامات نے ڈالر کی پرواز میں خلل پیدا کیا اور اس طرح بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں بے قابو اضافے کو آخر کار بریک لگ گئے اور عوام کو کسی طرح سکھ کا سانس لینے کا موقع میسر آیا۔
عوام کیلئے اب بھی مہنگائی بہت بڑا مسئلہ ہے، جسے بہرصورت حل کرنے اور اس کی شدت میں کمی لانے کیلئے سخت انتظامات کی ضرورت ہے۔ ایندھن کی قیمتوں پر قابو پانے اور عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں انتہائی ناگزیر ہیں۔ سازگار زرعی پیداوار کے باوجود سبزیوں اور پھلوں کی گرانی سمجھ سے بالاتر ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گرانی اور مہنگائی میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بھی کردار ہے، جس پر قابو پانے کیلئے ناگزیر انتظامی اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔
جیسے جیسے 2023 کا اختتام قریب آرہا ہے، عام آدمی کا بوجھ کم کرنے اور قوم کو استحکام کی طرف لے جانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے، نگران حکومت کو اپنے اختتامی لمحات میں کچھ ایسا کرکے جانا چاہئے کہ اس سے عوام کسی حد تک ریلیف محسوس کریں۔