موجودہ حکومت کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے میں مسلسل ناکامی اس کی معاشی و انتظامی ٹیم کی اہلیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔
حکومت کی نا اہلی نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، جس کے نتیجے میں قوم شدید تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہی ہے، حادثہ یک دم نہیں ہوتا، یہ المناک صورتحال بھی در حقیقت برسوں کے ناقص اور خود غرضانہ فیصلوں کا حاصل ہے۔
یہ مناسب ہے کہ کسی فرد یا گروہ پر انگلی اٹھانے کے بجائے خود اعتمادی کے حامل اس خود ساختہ معاشی ‘جادوگر’ کو مورد الزام ٹھہرایا جائے، جسے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ معیشت سدھانے کیلئے لایا گیا تھا مگر آج حال یہ ہے کہ اس کی بری اور ناکام پالیسیوں کی قیمت عوام مہنگائی کے عذاب کی صورت چکا رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی حکومت کے پیدا کردہ معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کی خاطر ایک عزم کے ساتھ ذمے داریاں سنبھالی تھیں، مگر کئی مہینے گزرنے کے باوجود وہ اس عزم کو عمل میں ڈھالنے میں تا حال کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
حکومت کی معاشی پالیسیوں کی یکے بعد دیگرے مسلسل ناکامیوں کے باعث مہنگائی ماہ بہ ماہ بلکہ یوم بہ یوم بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی بالکل ہی بے قابو ہوگئی ہے۔
مہنگائی میں اضافے کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق عوام اپنی ضروریات پر اوسطاً 23 فیصد زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار نومبر کے مقابلے میں دسمبر میں اشیاء کی قیمتوں میں تشویشناک اضافے کے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں، سرویز اس بات کا بھی اشارہ کرتے ہیں کہ قیمتیں اب تک مستحکم نہیں ہیں، جس کا مطلب یہی ہے کہ مہنگائی میں روز افزوں اضافے کا وحشت اثر سلسلہ پوری تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہی رہے گا۔
اعداد و شمار مظہر ہیں کہ خوراک اب مہنگائی کا سب سے بڑا محرک ہے، جس کی قیمتوں میں سال بہ سال 35.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بعض اشیاء کی قیمتیں پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں چونکا دینے والی شرح کے ساتھ 56 فیصد تک بڑھی ہیں۔
حالات اس قدر سخت ہوچکے ہیں کہ عام شہری کے پاس اپنے اخرجات کم کرنے اور اپنے خوابوں کا گلہ گھونٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے کیونکہ بے قابو مہنگائی نے گھریلو بجٹ کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف حالات کی کٹھنائیوں کا عالم یہ ہے کہ ملک کا مراعات یافتہ طبقہ بھی مایوس ہوکر بیرون ملک جانے کیلئے پر تول رہا ہے۔