بھارت میں ‘حلال’ پر پابندی

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارت میں بی جے پی کی اتر پردیش حکومت نے حالیہ دنوں حلال مصنوعات پر پابندی کا ایک متنازعہ قدم اٹھایا ہے جس کے تحت ایسی مصنوعات کی پیداوار، ذخیرہ، تقسیم اور فروخت کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جنہیں اسلامی شریعت کے مطابق حلال قرار دیا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ پابندی صحت عامہ کے مفاد میں ہے، کیونکہ کچھ کمپنیاں مبینہ طور پر مذہبی جذبات کا استحصال کرکے ایک مخصوص کمیونٹی میں اپنی فروخت بڑھانے کے لیے حلال ٹیگ کا استعمال کرتی ہیں۔
تاہم بہت سے لوگوں نے اس پابندی کو مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جو ہندوستان کی آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں۔ حلال سرٹیفیکیشن ایک ایسا عمل ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی پروڈکٹ یا سروس اسلامی قانون کی تعمیل کرتی ہے، جو بعض خوراکی اشیاء جیسے سور کا گوشت اور الکحل کے استعمال کو غلط قرار دیتا ہے، ساتھ ہی جانوروں کو ذبح کرنے کا ایک مخصوص طریقہ تجویز کرتا ہے۔
مسلم گروپوں اور حلال کی تصدیق کرنے والی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی امتیازی اور غیر آئینی ہے، کیونکہ یہ ان کے مذہب اور انتخاب کی آزادی کے حق کے منافی ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن ایک رضاکارانہ اور شفاف عمل ہے جو کوالٹی کونسل آف انڈیا کے تحت نیشنل ایکریڈیٹیشن بورڈ فار سرٹیفیکیشن باڈیز (NABCB) کے مقرر کردہ معیارات کی پیروی کرتا ہے۔ حلال سرٹیفیکیشن نہ صرف مصنوعات کے معیار اور حفاظت کو یقینی بناتا ہے بلکہ انہیں قومی اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں بھی فائدہ پہنچاتا ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔
حلال مصنوعات کی ممانعت کے اس متنازع اقدام نے بھارت میں خوراک اور تجارت کے ضمن میں مذہب کو ملانے کے حوالے سے ایک بحث کو جنم دیا ہے۔ حلال اشیاء اور سرٹیفیکیشن پر ملک بھر میں پابندی لگانے کی وکالت کرتے ہوئے بی جے پی کے یوتھ ونگ کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایسی مصنوعات کی اجازت آبادی کی اس اکثریت کے حقوق کی منافی ہے جو حلال مصنوعات کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی۔
ناقدین کا خیال ہے کہ بی جے پی، جو اس وقت یو پی پر حکومت کر رہی ہے، آئندہ انتخابات سے قبل اپنی ہندوتوا امیج کو مضبوط کرنے کے لیے اس مسئلے سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور یہ ایک اوچھا مگر بی جے پی کا دیرینہ ہتھکنڈا ہے۔

بی جے پی کے عہدیداروں نے حلال سرٹیفیکیشن کے عمل کو ایک “متوازی نظام” کے طور پر بیان کیا ہے، تاہم یہ ایک ایسا موقف ہے جسے انڈیا کے اہل دانش مضحکہ خیز سمجھتے ہیں، مگر یہ موقف بہرحال ملک کے کروڑوں مسلمانوں کے حقوق پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

حالیہ حلال ایشو بی جے پی کا پیدا کردہ کوئی نیا تنازع نہیں، یہ ایسے لاتعداد تنازعات کی بازگشت  ہے، جو ماضی میں بی جے پی وقتا فوقتا پید کرچکی ہے، جیسے عوامی مقام پر نماز پڑھنے اور مسلم خواتین کے حجاب کو نشانہ بنانا وغیرہ واقعات ماضی میں بڑے پیمانے پر تنازعات و مسائل کو جنم دے چکے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک وسیع تر رجحان کا غماز ہے جس کے زیر اثر ہندو انتہا پسند اپنی افرادی قوت کے بل بوتے پر بھارت کی مسلم کمیونٹی کو پسماندہ رکھنے کیلئے مختلف ثقافتی اور مذہبی علامتوں کو استعمال کرتے ہیں۔

Related Posts