صحافت کا سب سے اہم اصول ہے کہ ہمیشہ حق کی تلاش اور حقائق کی اطلاع دیتے ہیں۔ ایک صحافی کو ہمیشہ درست اطلاعات کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے، تمام متعلقہ حقائق دینے چاہئیں اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ خبرکی مکمل جانچ پڑتال کی ہے۔
آج کل ہندوستانی میڈیا اپنی جعلی ، من گھڑت اور مکمل فرضی خبروں کی اطلاع دہندگی کے ساتھ زردصحافت کی نچلی ترین سطح پرچلا گیا ہے جب کہ ہندوستان اپنے مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن سنسنی خیز میڈیا نے ان مظالم کو مکمل طور پر صرف نظر کردیا گیا اور منفی پروپیگنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں، ہندوستانی صحافی صحافت کے بنیادی اصولوں کو بھول گئے ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے کراچی میں مسلم لیگ ن کے رہنماء کیپٹن صفدر کی گرفتاری کو ہندوستانی میڈیانے ایسے پیش کیا جیسے خدانخواستہ کراچی میں ’خانہ جنگی‘ شروع ہوگئی ہو۔ بھارتی میڈیا نے ایسا تاثر دیا کہ پولیس اور فوج کے مابین تصادم ہوگیا ہے اور اس کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھ کر کراچی میں گیس لیک ہونے کی وجہ سے ہونیوالے دھماکے کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
تمام بڑے بڑے میڈیا ذرائع ابلاغ نے صحافتی اصولوں اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا ہے، بھارتی میڈیا حقائق کی جانچ اور سچائی سے نظر چراتے ہوئے مکمل طور پر غیر متوازن اطلاعات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ہندوستانی میڈیا اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات اور ساکھ کو داؤ پر لگاتے ہوئے پاکستان کے خلاف مسلسل بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہے۔
ہم پہلے ہی جعلی خبروں کے دور میں جی رہے ہیں جس نے جمہوریتوں کا تعین کیا ، انتخابات میں انتشار پیدا کیا اور غلط معلومات پھیلائیں۔ یہ پاکستان کے خلاف پانچویں نسل کی جنگ یعنی ففتھ جنریشن وارکا حصہ ہے جسے ہندوستان ایک حربےکے طور پراستعمال کررہا ہے ، ہندوستانی میڈیا کو اپنی رپورٹنگ کے اثرات اور اس سے دوسروں کو کس طرح تکلیف پہنچ سکتی ہے اس کا احساس کرنا چاہئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے کرتا دھرتاؤں نے کبھی بھی بھارتی میڈیا کی جعلی خبروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹس پر بھی لیبل لگایا جارہا ہے اور بدنیتی پر مبنی مضامین پر پابندی ہے لیکن ہندوستانی میڈیا اور خبروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔
یہاں تک کہ اگر مرکزی دھارے میں شامل ہندوستانی چینلز اس طرح بے بنیاداطلاع دیتے ہیں تو پھر بھی ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتاجبکہ صحافیوں کو آزادانہ رائے دینی چاہیے اور درجہ بندی اور مقبولیت کی جستجو میں میڈیا کو اپنے بنیادی اصولوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔