بھارت اورطالبان کے تعلقات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کشمیر سمیت کہیں بھی مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے کا حق رکھتے ہیںاور یہ دعویٰ طالبان کوبراہ راست بھارت کے ساتھ تناؤ کی کیفیت میں ڈال سکتا ہے کیونکہ بھارت افغانستان میں سخت گیر حکمرانی کے سخت مخالفین میں سے ایک رہا ہے۔طالبان نے کہا کہ ان کے پاس کسی دوسرے ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی پالیسی نہیں ہے لیکن وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور کہیں بھی مسلمانوں کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں۔

بھارت نے کابل میں نئی حکومت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے لیکن طالبان نے جواب دیا ہے کہ بھارت جلد ہی طالبان کی صلاحیت کو تسلیم کرلے گاجبکہ طالبان نے بھارت کو افغانستان میں مداخلت سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے ہیںاور کسی بھی ملک کو اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دینگے۔

تجزیہ کار متفق ہیں کہ طالبان کے قبضے نے افغانستان میں بھارتی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان نے راحت کا اظہار کیا ہے کہ بھارت اب افغان سرزمین کو کسی بھی تخریبی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے سے قاصر رہے گا۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت نے افغانستان میں اپنے تمام سفارتی سفارت خانے بند کر دیے ہیں اور اپنے شہریوں کو نکال دیا ہے۔

اب اسے نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے مشکل فیصلے کا سامنا ہے۔اس بحران کے درمیان بھارت نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ اپنی پہلی باضابطہ سفارتی بات چیت کی ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں ترقیاتی منصوبے مکمل کرے۔

بھارت نے متعدد ترقیاتی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں 3 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے لیکن اقتدارمیں حالیہ تبدیلی نے نئی دہلی کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ بھارت کی طالبان تک رسائی کو ضرورت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور بھارت صرف علاقائی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے۔

بہر حال بھارت شکست خوردہ کھلاڑیوں میں سے ایک ہے کیونکہ طالبان کی اقتدار میں واپسی ایک بڑا سفارتی دھچکا ہے۔ پچھلے 20 سالوں سے بھارت نے افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کی اور اسے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے پراکسی کے طور پر استعمال کیالیکن اب افغانستان میں بھارتی سفارتکاری کا کوئی وجود نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ مکمل طور پر کھیل سے باہر ہے۔

آج توقع کی جا رہی ہے کہ طالبان جلد ہی نئی حکومت کا اعلان کریں گے اور علاقائی طاقتیں جیسے چین ، روس ، ایران اور یہاں تک کہ پاکستان انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تسلیم کر سکتا ہے۔

ایک انتخاب جتنا بھی ناپسندیدہ ہو بھارت کے پاس طالبان کے ساتھ بات چیت کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ ایسا کرنے میں ناکامی اسے افغان مفادات کو سب سے بڑا نقصان پہنچانے والا ملک بنائے گی۔

Related Posts