قصور کی معصوم بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ جب میڈیا پر ہائی لائٹ ہوا جس کے بعد حکومت نے زینب الرٹ بل منظور کیا تو یہ امید ہوچلی تھی کہ ملک بھر میں جنسی زیادتی کے واقعات کم ہوں گے، تاہم بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جسٹس فار صائمہ آج کا ٹاپ ٹرینڈ ہے جس کے تحت صائمہ نامی ایک ورکنگ ویمن کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی پر انصاف طلب کیا جارہا ہے، تاہم ہمارا آج کا موضوع اِس سے بہت وسیع ہے۔
اسلام آباد، کراچی اورلاہور سمیت ملک بھر کے مختلف شہروں میں جنسی زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں جو ہماری تباہ حال معاشرتی اقدار پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ علمائے دین، اساتذہ اور خونی رشتے جب ایسے واقعات میں ملزمان قرار پاتے ہیں تو مختلف نوعیت کے سوالات جنم لیتے ہیں، آئیے ایسے ہی کچھ سوالات پر غور کرتے ہیں۔
جنسی زیادتی کے واقعات کے اعدادوشمار
سن 2018ء کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران 2 ہزار 300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 57 بچے قتل کردئیے گئے ۔جنسی جرائم کے حوالے سے پاکستان دُنیا میں چھٹا بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔ ایک غیر سرکاری ادارے ساحل کے مطابق ہر روز 9 سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آج سے 3 سال قبل یعنی 2017ء میں 1 ہزار 39 بچے اغواء ہوئے، 467 لڑکیوں سے جنسی زیادتی ہوئی، لڑکوں کے ساتھ 366 جنسی زیادتی کے واقعات ہوئے۔ اجتماعی زیادتی کے واقعات میں سے 180 لڑکوں اور 158 لڑکیوں کے ساتھ پیش آئے۔
زیادتی کے چند واقعات
لاہور میں حال ہی میں موٹر وے پر جنسی زیادتی کا واقعہ ہوا۔ ثنا نامی ایک خاتون جو بہن سے ملنے کیلئے لاہور آئی تھیں، انہیں 2 ملزمان نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یوکرائن میں تعینات پاکستانی فارن آفس کے سینئر آفیسر وقار احمد بھی جنسی ہراسانی کے معاملے پر برطرف ہوئے۔
عالمی سطح پر مختاراں بی بی نامی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ توجہ کا باعث بنا جس کے بعد ایسے واقعات میں پولیس کے کردار، عوام کے عمومی رویے اور معاشرتی اقدار پر مختلف سوالات اٹھائے گئے۔
ویمن ایکشن فورم کی شریک بانی مرحوم خاتون قانون دان عاصمہ جہانگیر کے مطابق پاکستان میں موجود 72 فیصد خواتین جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جو ایک انتہائی خطرناک شرح ہے۔
رواں برس مئی کے دوران یوکرائن میں مقامی ملازمہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے پر تحقیقات کی گئیں اور الزامات ثابت ہونے پر سیکریٹری خارجہ نے انہیں برطرف کیا۔ فیصل آباد میں رواں برس جنوری میں مسلح افراد نے 12اور 14 سال عمر کی 2 بہنوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ فیصل آباد کے نواحی گاؤں 379 گ ب میں ہوا جس کی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ واقعے میں 5 مسلح افراد نے 2 بہنوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
آئینِ پاکستان میں جنسی زیادتی بطور جرم
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت جنسی زیادتی ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ قانون کے تحت ایسے مجرموں کو سزائے موت اور 10 سے 25 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب اجتماعی زیادتی کے کیسز میں سزا صرف سزائے موت یا عمر قید ہوسکتی ہے جبکہ سزا دینے سے قبل ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر طبی ثبوت سامنے رکھے جاتے ہیں تاکہ مجرم پر جرم ثابت ہوجائے۔
گزشتہ برس حکومتِ پاکستان نے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کیں جن کا مقصد خواتین کے خلاف ظلم و تشدد اور جنسی زیادتی جیسے واقعات پر فوری انصاف کی فراہمی ہے۔
تقریباً 14 برس قبل 15 نومبر 2006ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ویمن پروٹیکشن بل کی منظوری دی جن کے تحت حدود آرڈیننس میں ترامیم کی گئیں۔ نئے بل کے تحت جنسی زیادتی کے مجرموں کیلئے سزائے موت کو قانون میں شامل کیا گیا۔ جنسی زیادتی ثابت کرنے کیلئے 4 گواہوں کی شرط بھی ختم کردی گئی۔
جرم کی تعریف
بل کے تحت کسی بھی خاتون سے جنسی عمل ایسے حالات کے تحت کرنا جنسی زیادتی کہلائے گا جن میں اول تو خاتون / یا مرد کی اپنی مرضی شامل نہ ہو، ان کی رضامندی جبری طور پر لی جائے، شادی سے قبل جنسی عمل ہو، یا رضامندی خوشی خوشی بھی لی جائے جبکہ خاتون کی عمر 16 برس یا اس سے کم ہو(یعنی وہ بچی یا بچہ ہو)۔
مذکورہ تعریف کے تحت ایک بات واضح ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ان کی مرضی شامل ہونا یا نہ ہونا برابر ہے جبکہ بالغ افراد کی مرضی ایسی صورت میں لی جائے کہ ان کے سر پر بندوق رکھی ہو یا کسی بھی دوسرے طریقے سے مجبور کیا جائے تو یہ آئین کے تحت جرم ہے۔
عمومی رویے
یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ کسی شخص کے ساتھ جنسی زیادتی یا ظلم ہوا ہو اور آپ اسے مختلف نصیحتیں کرنا شروع کردیں۔ بلا شبہ سادہ لباس پہننا اور پردہ کرنا شرعی اصول ہیں لیکن ان اصولوں کی تبلیغ کو جنسی زیادتی کیلئے اخلاقی جواز کے طور پر پیش کرنا خود کسی جرم سے کم نہیں۔
ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں بہت سی باتیں سمجھائی ہیں جن میں سے اہم ترین بات اخلاقیات اور معاشرتی رویوں میں اعتدال ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص مسلمان ہو یا پھر اِسلامی اصولوں پر اتنا ہی عمل کرتا ہو جتنا کہ معاشرے کو ضروری لگتا ہے ، چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا لگے۔
جب کسی کے ساتھ جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو لوگ یہ رائے دینے لگتے ہیں کہ متاثرہ خاتون نے شاید پردے کی پابندی نہیں کی تھی یا ان کو رات کے اندھیرے میں گھر سے نہیں نکلنا چاہئے تھا۔ ایسی تمام آراء جنسی زیادتی کے مجرموں کو شہ دیتی ہیں۔
حل کیا ہے؟
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جرم کوجرم سمجھا جائے اور اس کی رپورٹ کی جائے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام فرض شناسی کے ساتھ سرانجام دیں۔ عدلیہ فیصلے سنانے میں لیت و لعل اور تاخیر سے کام نہ لے کیونکہ بعض اوقات دیر سے انصاف مہیا کرنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے۔
بہت سے بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔اسلام ایسے جرائم کیلئے سخت سے سخت سزا کی حمایت کرتا ہے جبکہ آئینِ پاکستان میں ایسے جرائم کیلئے مناسب سزائیں موجود ہیں۔
بدقسمتی سے اس کے باوجود جرائم بڑھ رہے ہیں تو یہ ساری ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومتِ وقت اور عدلیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کا احساس کریں اور عوام کو انصاف مہیا کریں۔