پاکستان بھر میں کورونا وائرس کیسز کی صورتحال گزشتہ کچھ روز سے تسلی بخش رہی تاہم آج اچانک کیسز 24 گھنٹوں کے دوران 750 کے قریب جا پہنچے جو ایک حیرت انگیز صورتحال تھی۔
بعد ازاں یہ انکشاف سامنے آیا کہ 750 میں سے 50 فیصد سے زائد کیسز صرف کراچی سے رپورٹ کیے گئے جس پر سندھ حکومت کا حرکت میں آنا بنتا تھا، سو محکمۂ صحت سندھ نے ایکشن لے لیا۔
سندھ حکومت نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے خلاف کراچی میں مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئیے کورونا وائرس کی صورتحال اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے اِس فیصلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
کورونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سندھ بھر میں کورونا وائرس کیسز کی تعداد 1 لاکھ 36 ہزار 795 ہے جو دیگر تمام صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
دوسری جانب این سی او سی (نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر) نے کراچی میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز پر تشویش کا اظہار کیا کیونکہ ملک بھر کے 747نئے کورونا کیسز میں سے نصف سے زائد کا تعلق کراچی سے ہے۔
صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کے باعث مجموعی طور پر 2 ہزار 497 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں اور یہ اموات بھی ملک بھر میں سب سے زیادہ ہیں جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کا پس منظر
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن ہے کیا؟ اِسے سمجھنے کیلئے ہمیں وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان جنگ کو بھی سمجھنا ہوگا۔
آپ کو یاد ہوگا جب ملک بھر میں کورونا نیا نیا آیا تھا اور بے چارے وائرس نے پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا ہی تھا کہ سندھ حکومت نے اس کے خلاف سخت اقدامات شروع کردئیے اور سب سے پہلے کاروباری سرگرمیاں اور تعلیم سندھ میں بند ہوئی۔
جب سندھ میں لاک ڈاؤن کیا گیا تو وفاقی حکومت ایک نیا تصور سامنے لے آئی جس نے دُنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ یہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کا اچھوتا اور منفرد تصور تھا جس نے ہر شخص کی توجہ کھینچ لی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر کاروبار مکمل طور پر بند کردیا تو ملک بھر کا دیہاڑی دار طبقہ بری طرح متاثر ہوگا۔ لاک ڈاؤن کو اسمارٹ ہونا چاہئے کہ جہاں جہاں کورونا وائرس ہے، صرف وہیں لاک ڈاؤن کیا جائے۔
آج سندھ حکومت نے مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن متعارف کروا دیا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ وزیرِ اعظم عمران خان سے بھی ایک قدم آگے چل رہے ہیں۔
اسمارٹ سے آگے کا درجہ اوور اسمارٹ ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ منفی محسوس ہوا تو سندھ حکومت نے مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کا لفظ استعمال کیا۔ اِس مختصر سے تجزئیے کو مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تعریف یا پس منظر سمجھا جاسکتا ہے۔
سندھ حکومت کا مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن
محکمۂ صحت سندھ نے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے کراچی میں مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کیلئے کراچی کے تمام ڈپٹی کمشنرز اور پولیس کے اعلیٰ حکام کو خط لکھ دیا ہے۔
مذکورہ خط میں سندھ حکومت نے کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کرنے اور وائرس کی روک تھام کیلئے رہنما ہدایات یعنی ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی ہے۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب لاک ڈاؤن کیا گیا تھا تو سارے کاروباری ادارے بند کیے گئے، جب اسمارٹ لاک ڈاؤن ہوا تو صورتحال یکسر مختلف تھی یعنی کہیں تو کاروبار اور تعلیم دونوں معطل تھے، کہیں کوئی ایک جاری اور دوسرا معطل اور کہیں صورتحال یہ تھی کہ سب کچھ کھلا ہوا تھا اور معمولاتِ زندگی رواں دواں تھے۔
صوبائی حکومت کے تحت مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ کراچی کے کچھ علاقوں میں جن کی باضابطہ فہرست جاری کی جائے گی، لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا اور لوگوں سے ایس او پیز پر عمل کرایا جائے گا، تاہم دیگر مقامات پر معمولاتِ زندگی جاری رہیں گے۔
وائرس کے خلاف کراچی کے شہریوں کا عمومی رویہ
پوری دنیا کورونا کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے، خود کو سپر پاور کہنے والا امریکا وائرس کے سامنے ڈھیر ہوگیا، بھارت میں نریندر مودی حکومت وائرس کی روک تھام میں بری طرح ناکام ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں شہریوں کا رویہ یہ ہے کہ کورونا وائرس نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔
یقین نہیں آتا تو کراچی کی سڑکوں پر، گلیوں اور بازاروں میں، پارکس، شادی ہالز اور تعلیمی اداروں میں جا کر دیکھ لیں۔ آج بھی وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی نے کھارادر کے ایک نجی اسکول کو ایس او پیز کی خلاف ورزی پر سیل کرنے کے احکامات جاری کیے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا کراچی کے شہری کورونا وائرس کو کچھ بھی نہیں سمجھتے؟
صورتحال یہ ہے کہ سماجی فاصلہ تو دور کی بات، لوگ رسماً بھی ماسک لگانا پسند نہیں کرتے۔ بار بار ہاتھ دھونا تو چھوڑئیے، شہری صفائی ستھرائی کے بنیادی اصولوں کی پابندی کرتے بھی نظر آتے۔ پان کھانا، کوڑا کرکٹ گلی محلوں میں پھینکنا اور کسی کو ماسک پہنتے دیکھ کر مذاق اڑانا بھی معمول بنتا جارہا ہے۔
کیسز میں اضافے کا حل کیا ہے؟
یہاں ایک تکنیکی پہلو بھی سمجھ لیجئے کہ کورونا وائرس کیسز میں اچانک اضافہ کیوں ہوا؟ اِس کا براہِ راست تعلق کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ سے ہے۔
ملک بھر میں آج 32 ہزار سے زائد کورونا وائرس کے ٹیسٹ کیے گئے جبکہ 6 روز قبل ٹیسٹنگ کی تعداد 42 ہزار 299 تھی جو سب سے زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر کے بیان کے مطابق کورونا وائرس ٹیسٹنگ میں یہ تاریخی اضافہ تعلیمی اداروں کے کھلنے کے باعث ہوا کیونکہ جوں جوں ادارے کھل رہے ہیں، ٹیسٹننگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ ایک معمول کی بات ہے جس پر کسی کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کیسز کے مقابلے میں اموات کی شرح 2 اعشاریہ 07 فیصد بنتی ہے جو اتنی زیادہ نہیں اور سندھ میں یہ شرح محض 1 اعشاریہ 83 فیصد بنتی ہے جو ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔
فی الحال کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کا کوئی حل نظر نہیں آتا، سوائے اِس کے، کہ عوام کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر یعنی ایس او پیز پر عمل ضرور کریں۔ سماجی فاصلے کا خیال رکھیں، بار بار ہاتھ دھوتے رہیں اور ماسک ضرور پہنیں۔