مسئلۂ فلسطین اور اسرائیلی حملے، اصل حقائق کیا ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسئلۂ فلسطین گزشتہ کئی دہائیوں سے اقوامِ عالم، خصوصاً 57ممالک پر محیط او آئی سی کے اراکین کیلئے انتہائی تشویشناک مسئلہ رہا ہے کیونکہ اس کا تعلق کسی ایسے خطے میں کشت و خون سے ہے جہاں قبلۂ اوّل واقع ہے۔

مسلمانوں کا قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ ہے جو مقبوضہ فلسطین میں ہے جبکہ رواں برس 7اکتوبر کے روز حماس کی جانب سے ہزاروں راکٹ داغے جانے اور اسرائیلی مقبوضہ علاقے میں جا کر آپریشن کے بعد سے اسرائیل نے متواتر بد ترین بمباری کی جس کے نتیجے میں 6 ہزار 150 بچوں اور 4ہزار خواتین سمیت 15 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں:

اردن کی ملکہ کی جانب سے فلسطین کاز کی حمایت

مسلسل بمباری کے باعث تباہ کی گئی عمارتوں کے ملبے تلے سے زخمیوں کو نکالا نہیں جاسکا جن کی تعداد کا تخمینہ 7000 لگایا گیا ہے اور جن میں 4ہزار 700 بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے طبی عملے کے 207  اور 26ریسکیو ورکرز کے علاوہ 70صحافیوں کی بھی جان لے لی، یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ کے 100 سے زائد ملازمین کو بھی ہلاک کردیا۔

آج سے طویل عرصہ قبل 1897 میں یہودیوں کی پہلی کانفرنس ہوئی جہاں صیہونی مکتبۂ فکر کی حامل قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا ایک وطن ہونا چاہئے اور اسی دوران یہ طے ہوا کہ مختلف ممالک پر اثر ورسوخ قائم کیا جائے اور اس کی مدد سے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے جس کے بعد نئی دوڑ شروع ہوگئی۔

یہودی قوم نے عالمی مالیات کے شعبے پر آہستہ آہستہ قبضہ جمایا، میڈیا ہاؤسز خرید کر عوام میں یہودیوں میں سے صیہونیت پرستوں کیلئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی تحریک چلائی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اینٹی سیمیٹزم کے نام پر صیہونیت کی حمایت کی جاتی ہے، فلسطین میں قتل کیے جانے والے 15ہزار مسلمانوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور مزید تباہی و بربادی، قتل و غارت کی تیاریاں جاری ہیں۔

اگر آپ امریکا میں الیکشن لڑیں تو وہاں کے صیہونی آپ کے پاس پہنچتے ہیں اور آپ سے ایک انڈرٹیکنگ سائن کروا لی جاتی ہے جس میں طے یہ کیا جاتا ہے کہ اگر آپ الیکشن جیت گئے تو اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قرارداد منظور نہ ہونے دیں اور نہ ہی اسرائیل مخالف بات ہونے دیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل کے مظالم کو سیلف ڈیفنس سے تشبیہ دی جارہی ہے جبکہ سیلف ڈیفنس کی واضح تعریف موجود ہے۔ 1917 میں برطانوی کابینہ نے بیلفور ڈکلریشن کے نام سے ایک بیانیہ جاری کیا جس کے تحت یہ فیصلہ سنایا گیا کہ یہودیوں کو فلسطین میں بسنے کی اجازت دی جائے۔

ڈکلریشن کے تحت یہودیوں نے ان فلسطینیوں سے زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا جو اپنے ملک میں موجود نہ ہونے کے باوجود مختلف جائیدادوں کے مالک تھے۔ 1872 میں یہودیوں کی فلسطین میں آبادی محض 4فیصد تھی جو 1914 میں 10فیصد، 1931 میں 17فیصد اور 1948میں 33فیصد تک جاپہنچی۔

جب تک برطانوی فوج وہاں رہی، وہ یہودیوں کا ساتھ دیتی رہی اور یہودی فلسطینیوں کی سرزمین پر مسلسل خوشی سے یا زورزبردستی کے ساتھ قبضے کرتے چلے گئے۔ آج مقبوضہ فلسطین میں 8سے 10لاکھ تک سیٹلرز موجود ہیں جنہیں دنیا کے مختلف علاقوں سے لا کر فلسطین میں بسا دیا گیا ہے۔

آج سے 75سال قبل اسرائیل وجود میں آگیا تو فلسطینیوں کی جانب سے بھی جدوجہدِ آزادی شروع ہوئی تاہم عالمی سطح پر اسے کسی بھی طرح پذیرائی نہیں مل سکی کیونکہ اقوامِ متحدہ کی قومی سلامتی کونسل میں جب بھی فلسطینیوں کے حق میں قرارداد پیش ہوئی، اسے ویٹو کردیا گیا۔

جب 1967 میں مسلمانوں نے ایک جنگ میں مار کھائی تو او آئی سی کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں 57ممالک نے رکنیت حاصل کی اور یہ مسلمانوں کیلئے دنیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن کر ابھرا تاہم او آئی سی ممالک اپنے اپنے سربراہانِ مملکت کے بغیر فلسطینیوں کیلئے کوئی اہم اقدام اٹھانے میں ناکام رہے۔

حکمرانوں کے مفادات یا تو مغربی ممالک میں پیدا کیے گئے یا انہوں نے خود مغربی ممالک سے پینگیں بڑھائیں کیونکہ دنیا بھر میں مسلمان قوم مغربی ممالک کے کلچر، رواداری، پیشہ ورانہ چال چلن اور دیگر قسم کے اندازِ زندگی سے مرعوب ہیں اور کالا دھن کمانے والوں کو اپنا پیسہ اپنے ملک سے زیادہ سوئس بینکوں میں محفوظ لگتا تھا۔

جب بھی مسلمان ممالک او آئی سی میں مل بیٹھتے ہیں اور فلسطین کے حق میں کوئی اقدام اٹھانے کی باری آتی ہے تو مسلمان حکمران یہ خیال رکھتے ہیں کہ امریکا جو کہ اسرائیل کا نمبر1 حامی ہے یا اس کے اتحادی ممالک ان سے ناراض نہ ہوجائیں، یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں مختلف ادوار میں فقط زبانی کلامی قراردادیں منظور ہوتی رہیں جس میں عملی اقدامات کا وجود نظر نہیں آتا۔

کوئی ایسی قرارداد منظور نہ ہوسکی جس میں اسرائیل کے خلاف کسی پالیسی یا اقدام پر عملدرآمد کی بھی بات کی گئی ہو۔ مذمت ہوئی، فلسطینیوں کی امداد دینے کی بات ہوئی اور فلسطین کو آزاد کرانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا تاہم یہ نہیں کہاگیا کہ ہم اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف میں گھسیٹیں گے۔

کبھی او آئی سی پلیٹ فارم پر یہ بھی نہیں کہا گیا کہ ہم اسرائیل کی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کریں گے یا اسرائیلیوں کو اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دیں گے اور یہی وجہ ہے کہ جدوجہدِ آزادئ فلسطین کی تحریک اور فلسطین کے اسرائیلی سیٹلرز سے بچے ہوئے حصے غزہ پر حکمران حماس نے ایک اقدام اٹھایا۔

حماس نے 7اکتوبر کو اسرائیل کے مقبوضہ علاقے پر ہزاروں راکٹ داغے جس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کاز کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں اور اسرائیل وقت کے ساتھ ساتھ اپنے دارالحکومت کو بھی یروشلم منتقل کرچکا ہے جس پر شور و غوغا تو بہت ہوا، لیکن عملی اقدام کوئی نہیں اٹھایا گیا، اس لیے حماس کو مزاحمت کیلئے یہ اقدام اٹھانا پڑا۔

جنوبی افریقہ نے فلسطینیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے حق میں نہ صرف قرارداد منظور کی بلکہ یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف میں بھی لے گئے۔ جنوبی افریقہ کے ساتھ 5ممالک مزید مل گئے اور بدقسمتی سے او آئی سی کا ایک بھی ملک ان کے ساتھ نہیں۔ کسی ملک میں یہ ہمت ہی نہیں تھی۔

حالانکہ او آئی سی چارٹر کے پہلے آرٹیکل کی آٹھویں شق (سب کلاز) میں یہ بات موجود ہے کہ فلسطینی کاز کی حمایت اور فلسطینیوں کی امداد کی جائے گی۔ القدس الشرف آزاد فلسطین کا دارالحکومت بنے گا، جبکہ 7اکتوبر سے جاری جنگ میں اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا۔

جنگ کے 36روز بعد او آئی سی کا اجلاس ہوا اور آرٹیکل 9 کے تحت اس اجلاس کو ایکسٹرا آرڈینری یعنی ہنگامی ہونا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، جس سے او آئی سی کے رکن ممالک کی فلسطین کاز کیلئے سنجیدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

فلسطین کے خلاف جنگ سے صیہونی چاہتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے تسلسل کو جاری و ساری رکھا جائے کیونکہ صیہونی یہودی اتنے بااثر ہوچکے ہیں کہ اب ان کی متذکرہ چالوں کے سامنے  ایران اور 57مسلم ممالک ان کے سامنے ہیچ ہوچکے اور ایسا کیا بھی جاسکتا ہے۔

شاید اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی جانب سے بھی کچھ زیادہ مزاحمت کی توقع کی جاسکتی ہے، حالانکہ ایران کی طرف سے فلسطین کاز کی اس قدر کھل کر حمایت سامنے نہیں آئی جو ماضی میں اسرائیل کو للکارتا رہتا تھا اور جنگ کی دھمکیاں بھی دیتا تھا۔

جنگ بندی کے بعد اسرائیل کا منصوبہ یہ ہوگا کہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ حماس کے جنگجو اور ”دہشت گرد“ جنگ بندی کے 7روز میں دوبارہ تازہ دم ہوگئے ہیں، اس لیے ہم نے دوبارہ بمباری کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

صیہونیوں کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح غزہ کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے کہ غزہ میں اپنی فورسز لا کر بٹھا دی جائیں جیسا کہ اسرائیل نے 1967 کے بعد گولان ہائٹس، سینہ اور یروشلم پر قبضہ کیا تھا کیونکہ گریٹر اسرائیل کا مطلب یہی ہے کہ فلسطین سمیت عرب کے دیگر علاقوں پر بھی تسلط اور قبضہ حاصل کیا جائے۔

پاکستان سمیت اگر کسی بھی ملک کو فلسطینیوں کا حقیقی ساتھ دینا ہے تو پہلے اپنے آپ کو مضبوط کریں کیونکہ صرف آئی ایم ایف کے قرضوں یا پیٹرو ڈالر سے کام نہیں چلتا۔ صرف اسی صورت میں عالمی سطح پر فلسطین کاز کیلئے ایک توانا آواز بلند کی جاسکے گی اور شاید فلسطین کی آزادی کی راہ بھی ہموار کی جاسکے۔ 

Related Posts