حدیث کو سمجھنے میں قرآن کی اہمیت (مولانا ولی اللہ مجید قاسمی)

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت و رحمت کا تقاضا ہوا ہے کہ آخری دین کی بنیادی اور کلی احکام کو الفاظ کے ساتھ نازل کیاجائے تاکہ اسے سینوں میں محفوظ رکھنا آسان ہو اور اس کی جزئیات و تفصیلات کو معانی کی شکل میں اتارا جائے تاکہ اس کی حفاظت میں دقت اور سمجھنے میں پریشانی نہ ہو، پہلی وحی کو قرآن اور دوسری وحی کو سنت کہاجاتاہے۔

 کتاب و سنت دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اور دو جسم ایک جان کی طرح وحی الٰہی کے دو الگ الگ روپ ہیں ۔اس لیے دونوں ایک دوسرے کی تائید اور تاکید کرتے ہیں اور تشریح و تبیین بھی اور بسااوقات ایک دوسرے سے زائد مستقل حکم بھی بیان کرتے ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

الا اِنّی اوتیت القرآن ومثلہ معہ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، صحیح الجامع رقم الحدیث 643۔)

’’سنو! مجھے قرآن دیاگیاہے اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز بھی‘‘۔

 اس لیے حدیث کی وہی شرح معتبر ہوگی جو قرآنی تعلیمات کے مطابق ہو اور قرآن کی شرح و بیان کے لیے سنت کی طرف رجوع کیے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اس کی وہی شرح

قابل قبول ہوگی جوسنت کے معیار پر پوری اترتی ہو۔

البتہ ثبوت کے اعتبار سے قرآن مکمل طور پر قطعی ہے اور حدیثیں دو طرح کی ہیں ، متواتر اور غیرمتواتر،متواترروایت ثبوت کے اعتبار سے قرآن کے ہم پلہ ہے اور غیرمتواتر حدیث کی صحت و ثبوت کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے اور وہی حدیث صحیح مانی جائے گی جو قرآن کے کسی قطعی حکم کے خلاف نہ ہو۔

قرآن اور حدیث میں اختلاف:

  قرآن و حدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جوچیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اس میں اختلاف ممکن نہیں ہے ، اس لیے صحیح حدیث کبھی قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی ہے ، چنانچہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :

’’ہم اللہ اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناکر کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو قرآن یا عقل صریح کے مخالف ہو بلکہ آنحضور ﷺ کا کلام، قرآن کا بیان، اس کی تفسیر اور تفصیل ہے، جس حدیث کو کسی نے یہ خیال کرکے رد کردیا کہ وہ مخالف قرآن ہے تو وہ درحقیقت قرآن کے موافق ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتاہے کہ ایسی حدیثیں قرآن سے زائد ہیں اور خود اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی روایتوں کو قبول کرنے کا حکم دیاہے‘‘۔(الصواعق المحرقۃ:529۔)

 اگرکوئی روایت ، قرآن کے قطعی حکم کے خلاف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نسبت اللہ کے رسول کی طرف مشکوک ہے، چنانچہ حدیثوں کی صحت کے سلسلہ میں محدثین نے جو معیار مقرر کیے ہیں ان میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ

’’ولا یقبل الخبر الواحد فی منافاۃ حکم العقل وحکم القرآن الثابت المحکم والسنۃ المعلومۃ‘‘ (الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب:15۔)

’’ایسی غیرمتواترروایت کو قبول نہیں کیاجائے گا جو عقل، قرآن کے محکم اور قطعی حکم اور سنت معلوم کے خلاف ہو‘‘۔

حدیث کے مخالف قرآن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں اس طرح سے اختلاف ہو کہ موافقت کی کوئی گنجائش نہ رہے یعنی اگر کتاب و سنت میں بظاہر اختلاف محسوس ہوتو جس طرح سے قرآن کی دو آیتوں میں اختلاف کی صورت میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح سے کتاب و سنت کی اختلافی امور میں تطبیق کی کوشش ہونی چاہیے۔ یہ طرز عمل سخت ناروا ہے کہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کی وجہ سے کسی حدیث کو رد کرنا چاہا تو اسے مخالف قرآن کہہ کر غلط قرار دے دے۔

دوسرے یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ قرآن کے کسی قطعی اور محکم حکم کے خلاف ہے یا قرآن سے ہم نے جو سمجھا ہے اس کے مخالف ہے ، ایسی صورت میں حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہوتی ہے بلکہ ذہنی اپج کے برخلاف ہوتی ہے اور ایسی حالت میں سیدھا راستہ یہ ہے کہ حدیث کو اختیار کیاجائے اور عقلی مفہوم سے گریز ، یہ بڑی جرأت اور جسارت کی بات ہوگی کہ انسانی کاوش اور ذہنی ورزش کو قرآن بنانے اور عقل کو معصوم سمجھنے کی غلطی کی جائے اور اس کی وجہ سے ایسی حدیث کو رد کردیاجائے جسے جمہورامت نے اخذوقبول کی سند عطا کی ہو، حدیث سے بے نیازی برتنے والے عام طور پر اسی غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں ، وہ اپنے خیالات و وسائس ، باطل شبہات اور مستشرقین کے اعتراضات سے مرعوبیت کی وجہ سے حدیثوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کے لیے مخالف قرآن ہونے کا سہارا لیتے ہیں ۔

 یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ قرآن کے خلاف ہونے اور قرآن سے زائد ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے مگر کچھ لوگ اس فرق کا لحاظ نہیں رکھتے اور حدیث کے صحیح ہونے کا یہ معیار مقرر کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے مطابق ہو اور قرآن کے علاوہ کسی اصول اور احکام کو بیان نہ کرے، ظاہر ہے کہ اس معیار کے بعد حدیث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے ، اس لیے کہ اگر اس سے کوئی زائد بات معلوم نہ ہو تو پھر قرآن ہی کافی ہے ، قرآن کو اپنی تائید اور تاکید کے لیے کسی روایت کی ضرورت بھی کیاہے، نیز نماز کی رکعتوں کی تعداد اور کیفیت ادا وغیرہ قرآن کی کس آیت کے مطابق ہے، کیا یہ تفصیلات قرآن سے زائد نہیں ہیں ؟ یقینی طور پر قرآن سے زائد ہیں لیکن اس کے مخالف نہیں ، اور جو چیز بھی واقعی قرآن کے مخالف ہوگی ، محدثین اسے رد کرنے کے سلسلہ میں مغرب سے مرعوب اور مستشرقین کے شاگردوں اور خوشہ چینوں سے زیادہ حساس ہیں۔

حدیث کی شرح:

 حدیث کی شرح کے لیے بھی قرآن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور کسی حدیث کی وہی شرح معتبر ہے جو قرآن کے قطعی حکم کے موافق ہو اور اگر کسی حدیث کا ظاہری مفہوم، قرآن کے کسی حکم کے خلاف ہو تو اس کی ایسی وضاحت کی جائے گی جس سے وہ قرآن کے مطابق ہوسکے، درج ذیل مثالوں سے اس اصول کی تائید ہوتی ہے۔

1۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی کا حساب لیاگیا وہ تباہ ہوگیا، یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیاکہ قرآن میں ہے :

’’فَاَمَّامَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖo فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا‘‘(سورۃ الانشقاق:7،8۔)

’’جسے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیاگیا تو اس سے آسان حساب لیاجائے گا‘‘۔

 وہ کہنا یہ چاہ رہی تھیں کہ یہ حدیث تو قرآن کے خلاف معلوم ہوتی ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ آیت میں ’’حساب‘‘ سے مراد سرسری پیشی ہے اور حدیث میں ’’حساب‘‘ کا مفہوم پوچھ گچھ اور چھان بین ہے کہ جس کے ساتھ یہ طریقہ اپنایاگیا اس پر عذاب لازمی ہے۔ ذالک العرض یعرضون ومن نوقش فی الحساب ھلک(صحیح بخاری 6/81۔ط دارعالم الکتب، ریاض۔)

حاصل یہ ہے کہ قرآن کا مرتبہ اس اعتبار سے بہت بلند ہے کہ اس کے الفاظ بھی اللہ کی طرف سے ہیں اور اس جیسا کلام پیش کرنے سے انسان عاجز ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دلیل کے اعتبار سے کتاب و سنت میں کوئی فرق ہے، اس لیے کہ قرآن کی حجیت صر ف اس پہلو سے ہے کہ وہ ’’وحی الٰہی ‘‘ ہے۔اگر وہ معجزہ نہ ہوتا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے پھر بھی اس کی حجیت کا اقرار کرنا لازم ہوتا۔ لہٰذا حجیت اور اتباع کے پہلو سے دونوں یکساں ہیں ۔ ’’ان دونوں کی باہمی ترکیب ہی سے دین کا پورا نظام کھڑا ہوتاہے ، ان میں سے کسی ایک کو بھی الگ کرلیجئے تو سارا شیرازہ درہم برہم ہوجائے گا۔‘‘

 اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ سنت ثابت ہے یا نہیں ،اگر وہ ثابت ہے اور ثبوت کے اعتبار سے قرآن کی طرح قطعی ہے تو اس کے ذریعہ قرآن کے کسی عام حکم کی تخصیص کی جاسکتی ہے اور قرآن کی وہی تشریح معتبر ہوگی جس کی تائید حدیث سے ہوتی ہو، اس لیے کہ نبی اللہ کا نمائندہ ہوتاہے وہ عالم الغیب سے خبریں حاصل کرتاہے اور اس کے بندوں تک پہنچاتاہے ، وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتا۔ اس لیے وہ صرف مبلغ ہوتاہے اور یہ اعلان کرتارہتاہے کہ وما علینا الا البلاغ۔

اور غیرمتواتر روایتوں کی صحت اور تشریح کے لیے قرآن ایک معیار ہے اور ایسی ہی روایتیں قبول کی جائیں گی جو اس کسوٹی پر پوری اترتی ہوں ۔

Related Posts