بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کے اقدام پر تحفظات نے عوام کی پٹرول سستا ہونے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں بے تحاشا اضافے اور آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے تناؤ کی صورتحال نے عوام کی مشکلات میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دولت مند افراد کے لیے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور غریبوں کو چھوٹ دینے کے حکومتی منصوبے پر مشاورت نہیں کی گئی ہے۔
پیریز کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا عملہ اس حکومتی اسکیم کے آپریشن، لاگت، ہدف، مبینہ فراڈ کے خلاف اقدامات جیسے امور کے متعلق تفصیلات جاننا چاہتا ہے اور ان تمام حوالوں سے باریک بینی سے معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے تو اس اسکیم پر عمل درآمد جلد شروع ہونے کی نوید سنائی جا رہی ہے، حکومتی ذرائع کے مطابق اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے، تاہم اس شرط کے تحت وہ موٹر سائیکل مالکان بھی اس سے فائدہ اٹھانے کے اہل ہیں جو بینکوں تک ڈیجیٹل رسائی رکھتے ہیں اور رجسٹرڈ ہیں۔ ساتھ ہی بعض لوگ یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ سبسڈی کی شرائط میں عملی طور پر آگے چل کر پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسکیم آئی ایم ایف نے چلائی ہے؟ اگر ایسا ہے تو دیگر سبسڈیز پر بھی غور کیا جا سکتا ہے کیونکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کی فراہمی بہرحال حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ ان حالات میں اس طرح کے ریلیف پیکیجز بڑی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن اخراجات برداشت کرنے کا سوال بھی ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے پٹرول اسکیم کی شرائط واضح نہیں ہیں، تاہم اگر اس کا مثبت اثر پڑتا ہے، تو اسی طرح کی اسکیموں پر غور کیا جانا چاہیے۔
حکومت پاکستان آگے آئے اور آئی ایم ایف سے بات کرے اور ایسی عوامی ریلیف اسکیموں پر عالمی ادارے کو اعتماد میں لے اور اسکیم پر اٹھائے گئے تحفظات کو دور کرے ورنہ عام عوام کو ریلیف کی فراہمی صرف خواب ہی رہے گی۔