جامعہ اردو، گریڈ 12کا ملازم 17گریڈ کی غیر قانونی ملازمت کیسے کررہا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ اردو، گریڈ 12کا ملازم 17گریڈ کی غیر قانونی ملازمت کیسے کررہا ہے؟
جامعہ اردو، گریڈ 12کا ملازم 17گریڈ کی غیر قانونی ملازمت کیسے کررہا ہے؟

کراچی:تعلیمی اداروں میں تعلقات رکھنے والوں کو نوازنے کی روایات بڑھنے کی وجہ سے خودتعلیمی اداروں کے ملاز مین کا استحصال ہو رہا ہے،ایم فل اورپی ایچ ڈی کے داخلوں میں سفارش کے ذریعے داخلے لینے والے جامعہ اُردو کے ملازمین اہل طلبہ کی حق تلفی کر رہے ہیں، جامعہ اردو میں گریڈ 12کا کمپیوٹر آپریٹر بھرتی ہونے والا ملازم کیڈر تبدیل کر کے گریڈ 15میں کمپوزر تعینات ہو کر گریڈ 16 میں ترقی پا کر غیر قانونی طو رپر پرسنل سیکرٹری برائے شیخ الجامعہ کے عہدے پر براجمان ہے۔

جامعہ اُردومیں شیخ الجامعہ کے پہلو میں بیٹھے پرسنل سیکرٹری برائے شیخ الجامعہ شرجیل نوید نے ابلاغ عامہ میں ایم اے کیا، جس کے بعد اردو یونیورسٹی سے صرف تین ماہ کی رخصت لیکر ایم فل اورپی ایچ ڈی کیا، پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے این ٹی ایس کے ٹیسٹ میں شرجیل نوید کے نمبر کم آئے، جس کے باوجود اسے پی ایچ ڈی میں داخلہ دے دیا گیا، جس کے بعد شرجیل نوید نے پی ایچ ڈی  2021 میں مکمل کی۔

پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کیلئے شرجیل نوید نے لیکچرار ہما نثار، سیدہ ملیحہ بیگم کے ساتھ مل کر بے نظیر بھٹو کے قتل کیس پر 2007 سے 2008 کے دوران تحقیقی خبریں اور ریسرچ رپورٹ کا سروے کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا، جس کو جرمنی کے Y کیٹگیری کے آن لائن مجلے Revista Dilemas Contemporáneos: Educación, Política y Valore میں شائع کرایا۔ جبکہ یہ ریسرچ آرٹیکل ایک دوسری خاتون محقق نے لکھا تھا۔

ریسرچ آرٹیکل کے شائع ہونے کے بعد ڈگری کے حصول تک مذکورہ ریسرچ مجلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں کسی بھی کیٹیگری کی مستند مجلات کی لسٹ میں نہیں تھا، جس کے باوجود جامعہ اردو کی انتظامیہ نے ریسرچ آرٹیکل کے مجلے کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مستند مجلات کی لسٹ میں دیکھے بغیر ہی شرجیل نوید کو ڈگری جاری کر دی تھی، شرجیل نوید نے ڈگری لینے کے بعد خود کو ہائرایجوکیشن کمیشن کی پی ایچ ڈی کنٹری ڈائریکٹری (پی سی ڈی) میں شامل ہونے کے لئے بھی جعل سازی کی۔

شرجیل نوید نے پی سی ڈی میں شامل ہونے کے لئے سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹرروبینہ مشتاق،کنٹرولراور سپروائزر کے دستخط سے فارم جمع کرایا، جس کے پرفامے میں اپنے تحقیقی پیپر کومتعلقہ آن لائن جریدے کے نام سے بھیجنے کے بجائے ایسے جریدے کا نام شامل کیا،جس میں انہوں نے تحقیقی مقالہ لکھا ہی نہیں تھا،یوں جامعہ اردو کے مذکورہ دونوں افسران کے ساتھ ساتھ شرجیل نوید نے ہائرایجوکیشن کمیشن کے ساتھ بھی جعل سازی کا ارتکاب کیا۔

وائس چانسلر کے دفتر کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے شرجیل نوید نے سلیکشن بورڈ میں لیکچرار برائے ابلاغ عامہ کے لئے اپلائی کیاتھا، سلیکشن بورڈ میں جامعہ اردو سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے امیدوار حیرت انگیز طو رپر فیل ہو گئے، جب کہ 2007 سے تاحال انتظامی عہدے پر خدمات انجام دینے والے شرجیل نوید درس و تدریس سے دور رہ کر بھی نہ صرف ٹیسٹ میں پاس ہوئے بلکہ انٹرویو میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔

معلوم رہے کہ شرجیل نوید کا پی ایچ ڈی میں داخلہ بھی ہائرایجوکیشن کمیشن کے رولز کے برعکس ہوا تھا،پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے این ٹی ایس کے ٹیسٹ میں شرجیل نوید کے نمبر کم آئے تھے، جس کے باوجود اسے پی ایچ ڈی میں داخلہ دیئے جانے کی اطلاعات ہیں جب کہ ان کے ساتھ ٹیسٹ دینے والے متعدد امیدوار اچھے نمبر حاصل کرنے کے باوجود داخلے سے باہر کر دیئے گئے تھے۔

شرجیل نوید کی پی ایچ ڈی کنٹری ڈائریکٹری میں جعل سازی کی شکایت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے متعلقہ ونگ کو کی گئی، جس کے بعد ڈائریکٹر جنرل HEDR نذیر حسین کا کہنا تھا کہ اگرچہ وائس چانسلر، کنٹرولر اور سپروائزر کی تصدیق کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کسی کو ڈائریکٹری میں  شامل کرتا ہے تاہم متعلقہ افسران کے علاوہ امیدوار کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے گی جس کے باوجود تاحال  شرجیل نوید کا نام کنٹری ڈائریکٹری میں موجود ہے۔

شرجیل نوید کے ساتھ ریسرچ کرنے والی ریسرچ اسکالر نے بھی اسی تحقیقی پیپر کی بنیاد پر اپنا نام بھی پی سی ڈی میں شامل کرانے کے لئے رجو ع کیا،جس پرایچ ای سی کے اعداد و شمار یونٹ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر نائلہ ہارون نے 19 فروری کو امیدوار کو جوابی خط ارسال کیا، جس میں  لکھا گیا ہے کہ جس مجلے کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ مجلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مستند مجلات کی فہرست میں شامل نہیں ہے جب کہ اسی مجلے میں اُسی ریسرچ آرٹیکل کی بنیاد پر شرجیل نوید کا نام شامل کیا جا چکا ہے۔

شرجیل نوید کی بھرتی بھی جامعہ اردو میں جعل سازی سے ہوئی، 19ماچ 2007 کو جاری ہونے والے لیٹر میں شرجیل نوید کی تقرری 18مارچ کو منعقدہ سنڈیکیٹ اجلاس کی منظوری کے بعد ایک سال کے لئے کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی گئی تھی، جس لئے 21 مارچ 2007 کو گریڈ 12 میں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر بھرتی کا لیٹر بھی جاری کیا گیا تھا، بعدازاں ملی بھگت سے19 مارچ 2007 کو تصحیح تقرر نامہ جاری کیا گیا جس میں محمد شرجیل نویدکو کمپیوٹر آپریٹر کے بجائے گریڈ 15 میں کمپوزر کے طور پر تقرر نامہ جاری کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے میں بھرتی کے بعد کیڈر کی تبدیلی کسی بھی صورت میں نہیں کی جائے گی، کیڈر تبدیل کرنا غیر قانونی عمل ہے،کنٹریکٹ پر بھرتی کے باوجود 5 برس بعد شرجیل نوید کو اردو یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی (ڈی پی سی)کی منظوری سے بطور کمپوزر گریڈ 15 سے گریڈ 16 پر ترقی دی گئی، جس میں ڈی پی سی کی جانب سے دیگر 5 ترقی پانے والے ملازمین کے ناموں کے سامنے ترقی کی تاریخ درج کی گئی جب کہ جعل سازی پکڑے جانے کے خوف سے شرجیل نوید کے نام کے ساتھ ترقی کی تاریخ، ماہ و سال درج نہیں کئے گئے تھے۔

 

ادھر 6 اگست 2012 کو جامعہ اردوکے ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس میں وائس چانسلر کے پرسنل سیکرٹری کے لئے انٹرویو منعقد کئے گئے، جس میں ڈاکٹر سیمی نغمانہ، ارشد کامران اور انوار الحق نے 3 امیدواروں رحیم بخش، شرجیل نوید اور ایم قاسم نیازی سے انٹرویوز کئے، جس کے تحریری ٹیسٹ کے 50، ایم سی کیوز کے 20، ٹائپنگ اسپیڈ، متعلقہ تعلیمی قابلیت،ظاہری بود و باش،اعتماد سمیت دیگر کے نمبر علیحدہ علیحدہ رکھے گئے تھے۔

تینوں ممتحنین نے رحیم بخش کو تحریری ٹیسٹ میں 36، ایم سی کیوز میں 13، ٹائپنگ اسپیڈ میں 44.46، کمیونیکیشن میں 40، تعلیمی کارکردگی میں 45، ظاہری بود و باش میں 43، اعتماد کے 52 اور دیگر میں 75 نمبر دیئے تھے،یوں رحیم بخش نے کل 66.3 فیصد کامیابی حاصل کی تھی جو کسی بھی لحاظ سے پہلے نمبر پرتھے، دوسرے نمبر پر شرجیل نوید کو تحریر ی ٹیسٹ میں 21، ایم سی کیوز میں 11، ٹائپنگ اسپیڈ میں 29.74، کمیونیکیشن میں 31، تعلیمی کارکردگی میں 41، ظاہری بود و باش میں 39، اعتماد کے 34 اور دیگر میں 38 نمبر دیئے گئے تھے، یعنی کل 50.4 فیصد نمبر حاصل کئے تھے۔

وائس چانسلر کے پرسنل سیکرٹری کے لئے تیسرے امیدوار ایم قاسم نیازی تھے جن کو تحریر ی ٹیسٹ میں 17، ایم سی کیوز میں 12، ٹائپنگ اسپیڈمیں 27.3، کمیونیکیشن میں 18، تعلیمی کارکردگی میں 26، ظاہری بود و باش میں 22، اعتماد کے 25 اور دیگر میں 26 نمبر دیئے گئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کل 36.8 فیصد نمبر حاصل کئے تھے، جس کے بعد 13 اگست 2012 کو سلیکشن کمیٹی کے اجلاس منعقدہ 6 اگست کے بعد شیخ الجامعہ کی منظوری کے بعد رحیم بخش کو گریڈ 17 پر پرسنل سیکرٹری برائے شیخ الجامعہ کا تقرر کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی کے VC کیخلاف NAB تحقیقات کے بعد توہین عدالت کی کارروائی شروع

 دستاویزات کے مطابق سلیکشن کمیٹی کی سفارش کے بعد پہلے نمبر پر آنے  والے امیدوار رحیم بخش کو پرسنل سیکرٹری برائے شیخ الجامعہ تعینات کیا گیا اور دوسرے نمبر کے امیدوار شرجیل نوید کو متبادل امیدوار کے طور پر رکھا گیا تھا جس کے بعد منٹس کو تبدیل کیا گیا اور شرجیل کیلئے پرسنل سیکرٹری برائے دفتر شیخ الجامعہ کا لیٹر نکالا گیا جب کی ایسی کوئی بھی پوسٹ موجود ہی نہیں ہے ۔

دوسری جانب آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی جانب سے شرجیل نوید کی غیر قانونی تقرری، غیر قانونی ترقی کے خلاف ایک اعتراض اٹھایا گیا تھا جس کے لئے سوالات متعلقہ حکام کو بھیجے گئے تاہم وہ تسلی بخش جواب جمع نہیں کرا سکے، جس کی وجہ سے شرجیل نوید کی تقرری اور ترقی پر آڈٹ اعتراض بھی لگا دیا گیا ہے۔

 

آڈٹ اعتراض میں کہا گیا ہے کہ شرجیل نوید نے 3 سال اور 9ماہ تک بحیثیت کمپیوٹر آپریٹر کے نوکری کی اور تنخواہ بھی وصول کی، کمپوزر کا گریڈ 15 پر کیسے تقرر کیا گیا اور کیسے گریڈ 16 میں ترقی دی گئی اور پھر سلیکشن کمیٹی کی سفارش کے بعد کیسے 17 گریڈ میں پرسنل سیکرٹری کی نوکری پر براجمان ہے؟ یہ غیر قانونی عمل ہے، اس کو واپس اپنے اصلی عہدے پر بھیجا جائے اور ریکوری بھی کی جائے، اس کے باوجود شرجیل نوید طویل عرصے سے غیر قانونی طور پر وائس چانسلر آفس میں پرسنل سیکرٹری کے طور پرعہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

Related Posts