ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن کو نوجوان بیٹے کی موت کا صدمہ کیسے جھیلنا پڑا؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین اور ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمٰن نے اپنے اکلوتے مرحوم بیٹے ضیاء الرحمٰن کا پہلی بار تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے ان کے 36 سال کے بیٹے نے ان کے سامنے دم توڑ دیا۔

حال ہی میں مفتی منیب الرحمٰن نے پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی جہاں انہوں نے پہلی بار نجی زندگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے اکلوتے بیمار بیٹے کی موت کے بارے میں بات کی۔

یہ بھی پڑھیں:

کویت میں گھر چھوڑ جانے والے والدین کے تنہا بچوں کی دل دُکھا دینے والی داستان

انہوں نے میزبان کے سوال پر بتایا کہ ان کے بیٹے ضیاء الرحمٰن کی موت اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس کا انتقال کینسر سے لڑتے ہوئے، دوران علاج ہوا، وہ انتقال سے قبل ایک بار صحت یاب ہوکر گھر بھی واپس آیا تھا تاہم اس کا کینسر دوبارہ بڑھ گیا تھا اور یہ ہی اس کی موت کی وجہ بنا۔

انہوں نے بتایا کہ میرا اکلوتا بیٹا انتقال کے وقت 36 برس کا تھا، وہ جوانی میں ہی آنتوں کے کینسر کا شکار ہوگیا تھا۔ اگر ٹیومر جلد سامنے آجائے تو یہ قابل علاج ہے لیکن اگر ٹیومر جسم کے اندر ہے تو یہ تشخیص ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب اس کی تشخیص ہوئی تو وہ تیسری یا چوتھی اسٹیج میں تھا، تاہم ہم نے اس کا علاج کروایا، آپریشن ہوا پھر کیموتھراپی کے 12 سیشن ہوئے تو وہ ٹھیک ہوگیا لیکن ایک سال بعد ہی اس کے جسم میں کینسر دوبارہ پیدا ہوگیا تھا اور اس وقت وہ لاعلاج تھا۔

مفتی صاحب نے مزید بتایا کہ جب کینسر کی دوبارہ تشخیص ہوئی تو اس کے ٹیسٹ کیے، بائوپسی کے لیے سنگاپور گیا وہاں دوا تجویز ہوئی پھر امریکہ سے اجازت نامے کے بعد وہ دوائی ملی۔ ہم نے بہت کوشش کی، ڈاکٹروں نے بھی کوشش کی لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوسکا، یہ اللہ کا فیصلہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ضیاء الرحمٰن کے دو بچے ایک بیٹا اور بیٹی ہیں جو ان کے ساتھ رہتے ہیں اور بیٹا دسویں اور بیٹی چھٹی جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کے کمنٹس میں تبصرہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے مفتی صاحب سے اظہار تعزیت اور ان کے بیٹے کی مغفرت کی دعا کے ساتھ اس کے اس سانحے پر صبر اور ایمان کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔

واضح رہے ان کے بیٹے کا انتقال 2014 میں ہوا تھا، اس کے بعد سے اب تک مفتی صاحب نے کبھی اپنی نجی زندگی کے حوالے سے گفتگو نہیں کی اور صبر سے کام لیا۔

Related Posts