بلیو اکانومی کیا ہے اور پاکستان اس سے کیسے فائدہ اٹھاسکتا ہے ؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

How can Pakistan benefit from the blue economy?

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں میری ٹائم کا عالمی دن منایا جارہا ہے،پاکستان سمندری وسائل سے مالامال ملک ہے اورپاکستان کے پاس سر کریک سے لے کر جیوانی تک ایک ہزار کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے۔دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں کے آغاز سے ہی سمندر کی ایک الگ اہمیت رہی ہے اور دنیا کی تقریباً 90 فیصد تجارت پانی کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔

سمندر کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر گزشتہ چند سالوں سے بلیو اکانومی یا نیلی معیشت کامعاملہ پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔بلیو اکانومی کیا ہے اور پاکستان اس سے کیسے فائدہ اٹھاسکتا ہے ، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

بلیو اکانومی کیا ہے
بلیو اکانومی دنیا کی معیشت میں ایک ابھرتا ہوا نظریہ ہے اور اس کے پیچھے قدرتی آبی وسائل ، زیرِ آب معدنیات، آبی حیات، تیل و گیس کے ذخائر کی آف شور ڈرلنگ، ماہی گیری اور فشریز پراڈکٹ کی صنعت، سامانِِ تجارت کی نقل و حمل کے لیے جہاز رانی کی صنعت، ساحلی ہواؤں سے وِنڈ ٹربائن انرجی اور سمندری دھوپ سے شمسی توانائی کا حصول، ساحلی زمین پر ریزورٹس کی تعمیر اور ہوٹل و سیاحتی صنعت کا فروغ، سمندری بائیوٹیکنالوجی، ایکوا کلچر اور میٹھے پانی کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹ جیسے عوامل کارفرما ہیں۔

عمران خان کا نقطۂ نظر
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کاکہنا ہے کہ بلیو اکانومی پالیسی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلیو اکانومی پالیسی شپنگ کے شعبے کو بحال کرے گی جبکہ اس پالیسی سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ بحری شعبے میں پاکستان کی استعداد کو پورا کیا جائے گا۔

وزیربحری امور علی زیدی
وفاقی وزیر برائے بحری امور سید علی حیدر زیدی کا کہنا ہے کہ بلیو اکانومی ملک کی معیشت کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے،ملک کی80فیصد تجارت پورٹ سے ہوتی ہے، 80فیصد کسٹم کی وصولی پورٹ سے ہوتی ہے،جب ہم اقتدار میں آئے اور تحقیق کی تو بلیو اکانومی کا لفظ سیکھا۔

جہاز رانی، بندرگاہ اور شپنگ بلیو اکانومی کا حصہ ہیں۔ملکوں میں صنعتیں پورٹ کے قریب لگتی ہیں تاکہ پیداواری لاگت کم ہو، کوئلہ اور تیل سب سمندر پر آتا ہے۔

فشری بہت بڑا سیکٹر ہے، مینگروز پلانٹیشن ماحول کی تبدیلی کے لئے ضروری ہے، سمندر میں بہہ کر جانے والا کچرا سمندر خراب کرتا ہے، ماضی میں ماہی گیری پر کبھی توجہ نہیں دی گئی،ملکی معیشت کا انحصار سمندر سے تجارت پر ہے۔

معاون خصوصی بحری امور محمود مولوی
وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے بحری امور محمود مولوی کاکہنا ہے کہ معیشت کی تعمیر و ترقی کیلئے سمندری وسائل سے خاطر خواہ استفادہ ناگزیر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بیش بہا سمندری وسائل بخشے ہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری کا ذکر کرتے ہوئے معاونِ خصوصی محمود مولوی نے کہا کہ سی پیک کی کامیابی محفوظ سمندری راستوں سے منسلک ہے۔ حکومت بلیو اکانومی کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ہم پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کی ترقی کیلئے پر عزم ہیں۔

نیول چیف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی
امیر البحر ایڈمرل محمد امجد خان نیازی کاکہنا ہے کہ میری ٹائم میں پائیدار ترقی کے امکانات استعمال کرکے ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے جبکہ میری ٹائم کا عالمی دن جہاز رانی کے تحفظ اور بحری ماحول کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میری ٹائم سیکٹر معاشی ریڑھ کی ہڈی ہے، 95 فیصد تجارت سمندری راستے سے ہوتی ہے۔سی پیک سے پہلے سے متحرک بحری سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔

پاکستان کیسے فائدہ اٹھاسکتا ہے
بحیرۂ عرب میں پاکستان کا خصوصی معاشی زون تقریباً ’’دولاکھ چالیس ہزار مربعکلومیٹر پر محیط ہے جس میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پچاس ہزار کلومیٹر کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہونے کے باوجود صرف 3 بندرگاہوں میں سے 2 کراچی جبکہ ایک گوادر میں ہے، پاکستان میں کے ٹی بندر، جیوانی، اورماڑہ، سونمیانی اور گڈانی کے ساحلوں پر بندرگاہیں بنا کر معاشی ترقی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

ماہی گیری ،سمندری خوراک کی پراسیسنگ،جہاز سازی اور مرمت،تیل، گیس اور معدنیات، ساحلی تفریح اور سیاحت کو فروغ دیکر پاکستان بلیواکانومی سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنی معیشت کو بہتر بناسکتا ہے۔

پاکستان کی صورتحال اور اقدامات
بلیو اکانومی کے حوالے سے اگرپاکستان کا مقابلہ خطے کے دیگر ممالک سے کیا جائے تو ہم قابلِ ذکر نظر نہیں آتے۔ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش اور بھارت بلیو اکانومی میں زیادہ آگے ہیں۔

بلیو اکانومی کے پیمانے جی ایم پی کے لحاظ سے بات کی جائے تو پاکستان کا جی ایم پی 1اعشاریہ 5 ارب ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کا جی ایم پی 6ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور بھارت بھی 6ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

اس بدلتے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان کو بلیو اکانومی کو قومی ترجیحات میں اہمیت دینے کی ضرورت ہے اورہمیں بلیواکانومی سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھارت اور بنگلہ دیش کی طرز پر ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھناہوگا۔

Related Posts