ایچ آئی وی پازیٹو دلہن روبینہ، ایڈز کو مات دینے کے لیے پر عزم

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سر پر دھنک رنگوں کا اسکارف لگائے ایچ آئی وی پازیٹو دُلہن، ایک روشن مثال
سر پر دھنک رنگوں کا اسکارف لگائے ایچ آئی وی پازیٹو دُلہن، ایک روشن مثال

سر پر دھنک رنگوں کا اسکارف لگائے، چہرے پر دلکش مسکراہٹ کے ساتھ  پرجوش اور ملنسار روبینہ ایچ آئی وی کو مات دینے کیلئے پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔ ایچ آئی وی متاثرہ روبینہ لوگوں کیلئے ایک روشن مثال ہیں۔کراچی کی رہائشی روبینہ امید میڈیکل سینٹر میں ملازمت کرتی ہیں جہاں ان کا علاج کیا گیا۔

روبینہ کا کہنا ہے کہ جب مجھے پتا چلا کہ میں ایچ آئی وی پازیٹو ہوں تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، میرے آنسو  خودبخود آنکھوں سے رواں ہو گئے، مجھے ایسا لگا کہ میری زندگی ختم ہوگئی۔

جب میں نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ مجھے ایچ آئی وی ہے تو میرے اہل خانہ نے مجھ سے ملنا چھوڑدیا۔ مجھے ایسا لگا کہ شائد ایک پل میں ہی میری دنیا اجڑ گئ، میرا خاندان، سہیلیوں اور پڑوسیوں نے مجھ سے ناطہ توڑ لیا کیونکہ سب کو ڈر تھا کہ یہ مرض ان میں منتقل نہ ہوجائے۔ایچ آئی وی کی وجہ سے میرا حلقہ احباب ختم ہوگیا اور مجھے ایسا لگا کہ زندگی تھم گئی ہے۔

پاکستان میں ایچ آئی وی کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ یہ بیماری ساتھ بیٹھنے، چھونے اور ساتھ کھانے سے پھیل سکتی ہے۔ ایچ آئی وی کے حوالے سے شعور وآگہی کی کمی کی وجہ سے لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ شائد ایچ آئی وی پازیٹو شخص کے قریب رہنے سے بھی یہ مرض منتقل ہوسکتا ہے۔

حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے تین ہی طریقے ہیں/ خون سے متاثرہ اوزار یا آلات مثلاً آپریشن کے آلات یا دندان سازی کے آلات یااستعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال یا ٹیٹو کی سوئی وغیرہ۔

ایچ آئی وی سے متاثر شخص پر استعمال کیے گئے اوزاریا آلات کسی دوسرے شخص پر استعمال کئے جائیں تو ایچ آئی وی کا وائرس خون کے ذریعے منتقل ہوجاتا ہے۔ دوسرا طریقہ جنسی عمل ہے،خواہ عورت اور مرد کا تعلق ہو یا پھر ہم جنسی رجحان ہو، اگر دونوں پارٹنر میں سے ایک میں ایچ آئی وی موجود ہے تو اس سے دوسرا انسان ضرور متاثر ہوگا جبکہ تیسری وجہ ایچ آئی سے متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والی اولاد ہے۔

اگر ماں کو ایچ آئی وی ایڈز نامی مرض ہے تو بچے میں حمل یا ڈیلیوری کے دوران منتقل ہوسکتا ہے۔اگر ماں بچے کو اپنا ودھ پلا رہی ہے تو اس کے ذریعے یہ وائرس بچے میں منتقل ہو گا۔ایچ آئی وی مریض کے ساتھ ہاتھ ملانے یا چائے پینے سےایڈز ہونے کا  کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کا پتا چلنے کے بعد اپنے ابتدائی ردعمل کے بعد روبینہ کے اہل خانہ نے ان کے ساتھ تعلق ختم نہیں کیا بلکہ ان کی بیماری کی اصل وجوہات کا ادراک کرتے ہوئے ان کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ ان پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے روبینہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔

روبینہ نے بتایا کہ میں نے ابھی نویں جماعت کے امتحانات ختم کیے تھے کہ میرے لئے رشتہ آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میری شادی ہوگئی لیکن مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کا شوہر نشے کا عادی ہے۔


پاکستان میں آج بھی شادیاں طے کرتے وقت لڑکی کی رضا مندی یا رائے نہیں لی جاتی اور لڑکی  یا لڑکے کے اہل خانہ صرف اپنے بچوں کی خوبیاں ہی بیان کرتے ہیں کبھی بھی ان کی خامیوں کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ رشتہ ٹوٹنے کے ڈر سے اپنے بچوں میں موجود خامیوں کو اکثر چھپالیا جاتا ہے۔

ایک نابالغ لڑکی جس کومنشیات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اس کو ایک ایسے شخص کے پلے باندھ دیا گیا جو کہ نہ صرف منشیات کا عادی بلکہ محبت سے عاری بھی تھا۔روبینہ نے کہا کہ وہ مجھ سے پیسے مانگا کرتا تھا لیکن میرے پاس  اسے دینے کو کچھ نہیں تھا۔ میرا شوہرکمرے کوتالا لگا کرمجھے تاروں سے مارتا، اگر کوئی کھانا دے دیتا تو میں دن میں ایک بار کھانا کھاتی تھی۔بصورتِ دیگر میں بھوکی سو جاتی تھی۔ وہ انتہائی تکلیف دہ دن تھے۔


یہ سب بتاتے ہوئے روبینہ کی آنکھیں پھر بھرآئیں۔ روبینہ نے اپنے پلو سے آنکھیں پونچھتے ہوئے خود کو سنبھالا اور ایک بار پھر گفتگو کا سلسلہ بحال کیا۔

روبینہ نے کہا کہ زندگی اسی پریشان کن طریقے سے جاری رہی اور میں اندر ہی اندر دکھ سہتی رہی۔پھر  خدا نے ہمیں اولاد کی نعمت سے نوازا تو میں نے خود کواپنے بچوں کیلئے وقف کردیا۔ میں نے خود کو بچوں کیلئے کھانا تیار کرنے، اسکول بھیجنے اور گھرکے  دیگر کاموں میں مصروف کرلیا۔

چار بچوں کی ماں بننے کے بعد روبینہ اپنے شوہر کے مظالم سے تو بچ گئی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، روبینہ کا شوہر دنیا چھوڑنے سے پہلے ایچ آئی وی کا مرض اسے دے گیا۔روبینہ کا کہنا ہے کہ میرے شوہرکے اہل خانہ نے مجھے نہیں بتایا تھاکہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہے لیکن کم سے کم میرے شوہر کو تو مجھے بتانا چاہیے تھا۔


ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 1987 سے پاکستان میں ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایڈز کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایک لاکھ سے زیادہ ایچ آئی وی / ایڈز کے مریض موجود ہیں لیکن صرف 15سے 20ہزار مریض رجسٹرڈ ہیں جبکہ بیشتر لوگ ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کے باوجود علاج سے کتراتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ دنیا 2030 ء تک ایڈز جیسی مہلک بیماری سے چھٹکارہ پانے کا منصوبہ بنا رہی ہے لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایڈزمیں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔مرض کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھاری فنڈنگ کے باوجود صورتحال مزید تشوشناک ہوئی۔

حکومت ایچ آئی وی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے اور علاج کی سہولت فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان بھر میں زیادہ تر مریض غیر ملکی و غیر سرکاری تنظیموں پر انحصار کرتے ہیں۔ روبینہ ان بہت سے مریضوں میں شامل تھی جنھیں مقامی اسپتالوں نے علاج کی سہولت دینے سے سے انکار کردیا۔

روبینہ نے بتایا کہ ڈاکٹر اور نرسیں مجھ سے اس طرح دور بھاگتے تھے جیسے میں کوئی اچھوت ہوں لیکن پاکستان سوسائٹی نے میری مدد کی۔ میرے اہل خانہ سے بات کرنے کے بعد انہوں نے میرا علاج بالکل مفت کیاحتیٰ کہ اس کے بعد انہوں نے مجھے نوکری بھی دی۔

اپنی بیماری کے باوجود ملنے والے پیار کی بدولت آج روبینہ صرف ایک ایچ آئی وی مریض نہیں ، وہ ایک ماں اور ایک بیوی کے ساتھ  ساتھ معاشرے کی ایک کارآمد فرد بھی ہیں۔


ان کا کہنا ہے کہ میرا دوسرا شوہر جانتا ہے کہ میں ایچ آئی وی پازیٹوہوں۔ان کا پورا خاندان بھی جانتا ہے،  لیکن وہ سب میرے ساتھ بہت پیار کرتے ہیں۔ اگر میں کبھی بیمار ہوجاؤں تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں اور مجھے ہسپتال لے جاتے ہیں۔روبینہ صحت مند رہنے کےلئے ذیابیطس اور دل کے مریضوں کی طرح باقاعدگی سے ادویات لیتی ہیں۔

روبینہ کا اس معاشرے سے سوال ہے کہ  میں اس دنیا میں پیدا ہوئی  یا میری شادی ایسے انسان سے ہوئی جو ایچ آئی وی پازیٹو تھا، تو اس میں میرا کیا قصور تھا؟ مجھے صرف اس وجہ سے اس معاشرے میں رہنے کی اجازت نہیں کہ مجھے ایچ آئی وی ہے۔

 پرنم آنکھوں کے ساتھ سرجھکائے اس خاتون کیلئے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں، کیا آپ کے پاس کوئی جواب ہے؟

Related Posts