افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کورونا وائرس نہ صرف پاکستان میں داخل ہوچکا ہے بلکہ وفاقی حکومت نے وائرس کے باعث 1 شخص کی وفات کی تصدیق بھی کردی ہے اور آہستہ آہستہ ملک میں اجتماعات پر پابندیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔
پنجاب حکومت اور مری انتظامیہ نے اِس حوالے سے ایک اچھا اقدام اٹھایا۔ انہوں نے مری کو سیاحوں کے لیے بند کردیا۔ آپ خود غور فرمائیں کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی غیر ذمہ داری سے کتنے زیادہ افراد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
حکومت چاہتی ہے عوام گھر میں بیٹھیں۔ اجتماعات میں نہ جائیں۔ ادارے آپ کو چھٹیاں اس لیے نہیں دیتے کہ آپ تفریح کے لیے لاؤ لشکر لے کر مری پہنچ جائیں۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ صورتحال ہے جس میں غیر ذمہ داری کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں سوال یہ ہے کہ جو لوگ اداروں سے جڑے ہوئے ہیں یعنی سرکاری و غیر سرکاری اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، ان کے لیے ہفتوں گھر بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں، تاہم روز کے روز کمانے والوں کا کیا ہوگا؟
ایک مزدور جس کی ایک دن کام نہ کرنے پر کوئی مدد نہیں کرتا اور پورے گھر کو فاقے سے گزرنا پڑتا ہے، اگر اسے ہفتوں گھر بیٹھنا پڑے۔ خدانخواستہ ملک کے چند ایک یا زیادہ شہروں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے تو ایسے لوگوں کا کیا ہوگا؟
آج ہم اس حوالے سے آپ کو چند تجاویز دیں گے کہ ایسی صورتحال میں بطور قوم ہمیں کس طرح کا ردِ عمل دینا چاہئے۔ کورونا وائرس ایک ناگہانی آفت ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں من الحیث القوم ایک ہونا ہوگا۔
زکوٰۃ کے لیے رمضان کا انتظار نہ کریں