کورونا وائرس سے ملک بھر میں ممکنہ لاک ڈاؤن : غریبوں کی مدد کتنی ضروری؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا وائرس سے ملک بھر میں ممکنہ لاک ڈاؤن : غریبوں کی مدد کتنی ضروری؟
کورونا وائرس سے ملک بھر میں ممکنہ لاک ڈاؤن : غریبوں کی مدد کتنی ضروری؟

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کورونا وائرس نہ صرف پاکستان میں داخل ہوچکا ہے بلکہ وفاقی حکومت نے وائرس کے باعث 1 شخص کی وفات کی تصدیق بھی کردی ہے اور آہستہ آہستہ ملک میں اجتماعات پر پابندیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔

پنجاب حکومت اور مری انتظامیہ  نے اِس حوالے سے ایک اچھا اقدام اٹھایا۔ انہوں نے مری کو سیاحوں کے لیے بند کردیا۔ آپ خود غور فرمائیں کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی غیر ذمہ داری سے کتنے زیادہ افراد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

حکومت چاہتی ہے عوام گھر میں بیٹھیں۔ اجتماعات میں نہ جائیں۔ ادارے آپ کو چھٹیاں اس لیے نہیں دیتے کہ آپ تفریح کے لیے لاؤ لشکر لے کر مری پہنچ جائیں۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ صورتحال ہے جس میں غیر ذمہ داری کی کوئی گنجائش نہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں سوال یہ ہے کہ جو لوگ اداروں سے جڑے ہوئے ہیں یعنی سرکاری و غیر سرکاری اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، ان کے لیے ہفتوں گھر بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں، تاہم روز کے روز کمانے والوں کا کیا ہوگا؟

ایک مزدور جس کی ایک دن کام نہ کرنے پر کوئی مدد نہیں کرتا اور پورے گھر کو فاقے سے گزرنا پڑتا ہے، اگر اسے ہفتوں گھر بیٹھنا پڑے۔ خدانخواستہ ملک کے چند ایک یا زیادہ شہروں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے تو ایسے لوگوں کا کیا ہوگا؟

آج ہم اس حوالے سے آپ کو چند تجاویز دیں گے کہ ایسی صورتحال میں بطور قوم ہمیں کس طرح کا ردِ عمل دینا چاہئے۔ کورونا وائرس ایک ناگہانی آفت ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں من الحیث القوم ایک ہونا ہوگا۔ 

زکوٰۃ کے لیے رمضان کا  انتظار نہ کریں

آج رجب کی 24 تاریخ ہے یعنی رجب کے اختتام میں 1 ہفتہ باقی ہے جس کے بعد شعبان اور پھر رمضان المبارک آئے گا۔ مالدار حضرات ہر سال زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کا انتظار کرتے ہیں لیکن اِس بار یہ ضروری نہیں ہے۔

ایک بات اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ اسلام نے ہم پر زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان المبارک کا انتظار کرنے کی کوئی شرط عائد نہیں کی بلکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا تعلق صاحبِ نصاب ہونے سے ہے۔

مخیّر حضرات کو چاہئے کہ کورونا وائرس جیسی ناگہانی آفت سے نمٹتے ہوئے غریب افراد کی مدد فوری طورپر شروع کردیں۔ بے شک رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے لیکن اپنے ثواب کو بالائے طاق رکھ کر غریبوں کی مدد کرنے والے کا خدا کی نظر میں یقینا ایک الگ مقام ہے۔

نیکی اور جزا و اجر کا تصور

اسلامی شریعت نے اصول اور ضوابط اس لیے بنائے تاکہ لوگ ایک باضابطہ قانون کی طرح ان پر عمل کرسکیں۔ یہ بات سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ نیکی جزا و اجر کے تصور سے آگے کی چیز ہے۔

ہمیں اسلام نے خود سمجھایا کہ اُس گدھے کی طرح نہ بنو جسے چارہ نہ ڈالا جائے تو وہ بوجھ نہیں اٹھاتا۔ اقبالؔ نے کہا:

سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے ۔۔۔ اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

جو لوگ یہ سوچ کر نیکی کرتے ہیں کہ ہم قیامت کے دن خدا سے اس کا صلہ مانگنے کے حقدار ہوں گے، ان کی سوچ غلط ہے۔آپ جان دے کر بھی خدا کا حق ادا نہیں کرسکتے، بقول غالبؔ: جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی۔۔۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

کورونا وائرس کی صورتحال اور غریبوں کی امداد

ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو رزق کے لیے ہر روز صبح کے وقت نکلتے ہیں اور شام یا رات کو واپس آتے ہیں۔ مزدوروں کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں میں روزانہ کی اجرت پر مامور افراد بھی ایسے غرباء میں شامل ہیں جن کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہو۔کورونا وائرس کے باعث یہ لوگ خدانخواستہ  آج یا آنے والے دنوں میں آپ کو گھر بیٹھے نظر آئیں گے۔ 

کرایوں پر رہنے والے نوکری پیشہ افراد ، بیوہ خواتین، ٹیچرز اور ایسے تمام شعبہ جات سے وابستہ افراد جن کی ماہانہ آمدنی 20 ہزار یا اس سے کم ہو، غریب لوگوں میں شامل ہیں۔ان کے پاس چند دن سے زیادہ راشن اور کھانے کا سامان عموماً موجود نہیں ہوتا جس کے باعث ان کی زیادہ تر زندگی قرض لینے اور اس کی ادائیگی میں گزر جاتی ہے۔ 

مدد کیسے کی جائے؟

کوشش یہ کی جائے کہ مستحق افراد کو ماہانہ راشن، اشیائے ضروریہ اور ادویات لے کر دے دی جائیں۔ امداد نقد رقم یا چیک کی صورت میں بھی کی جا سکتی ہے۔

نوکری پیشہ افراد اگر آپ سے نقد رقم یا راشن کی جگہ اُدھار کی بات کریں تو اسے بھی قبول کیا جاسکتا ہے۔ قرضِ حسنہ یعنی بلا سود قرض دینا بھی آج کے دور میں ایک ایسی نیکی ہے جسے بری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے۔

فلاحی اداروں کے ذریعے امداد 

ملک کے متعدد فلاحی ادارے غریبوں کی امداد کے لیے میدانِ عمل میں اُتر چکے ہیں۔ آپ چاہیں تو فلاحی اداروں کے ذریعے بھی غریب لوگوں کی امداد کرسکتے ہیں۔ 

بہت سے فلاحی ادارے آپ کو زکوٰٰۃ و صدقات کی ادائیگی کا آن لائن طریقہ کار مہیا کرتے ہیں جس کے تحت آپ آسانی سے گھر بیٹھے غریب افراد کی مدد کرسکتے ہیں۔

اگر آپ اپنی نظر سے دیکھنا چاہیں کہ آپ کی رقم سے کس غریب کی کتنی مدد کی گئی، تو بعض فلاحی ادارے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 

غریبوں کی مدد کتنی ضروری؟

اگر آپ نے اپنی دولت حرام اور ناجائز ذرائع سے نہیں کمائی اور آپ واقعی کسی غریب کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اُس غریب کو اپنی آنکھوں سے دیکھئے۔ اس کی مدد اپنے ہاتھ سے کیجئے۔

ہماری یہ چند گزارشات پڑھنے کے بعد اگر آپ نے واقعی کسی غریب کی مدد کی تو اس کی آنکھوں میں اظہارِ تشکر کے جذبات آپ کو کیسی خوشی عطا کرتے ہیں، یہ جان کر آپ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ غریبوں کی مدد کتنی ضروری ہے۔ 

Related Posts