حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جبکہ آنحضرت ﷺ نے ہی فرمایا کہ حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد (حضرت علی کرم اللہ وجہ) ان سے بہتر ہیں۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں درج ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں۔ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اے اللہ! جو حسین سے محبت کرے، اس سے محبت کر۔ حسین میرے اسباط میں سے ایک سبط ہے۔

واقعۂ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت آج بھی ضرب المثل سمجھی جاتی ہے جبکہ 10 محرم الحرام اسلامی تاریخ کے مطابق ایک بڑا دن ہے جب بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے جن کا تعلق انبیائے کرام اور اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیوں سے ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاہدے کے خلاف اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا جو وفات پا گئے اور جانشین بن کر سامنے آنے والے ان کے بیٹے یزید نے حضرت امام حسین سے بیعت کا مطالبہ کیا جس سے حضرت امام حسین نے انکار فرمایا۔

سن 60 ہجری میں حضرت امام حسین نے مدینہ چھوڑ دیا تاہم کوفے کے لوگوں نے آپ کو خط لکھ کر بیعت کا جھوٹا وعدہ کیا جس پر آج تک کوفی لایوفی (کوفہ والے وفا نہیں کرتے) کی مثل مشہور ہے۔ آپ کچھ اہلِ بیت اور پیروکاروں کا چھوٹا سا قافلہ لے کر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔

کربلا کے قریب ہی یزید کی فوج نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے کو روک لیا اور 10 محرم 61 ہجری کے روز کربلا میں ہی آپ کے بیشتر اہلِ خانہ اور ساتھیوں سمیت آپ کو شہید کیا۔

اس لڑائی میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر اور خواتین اور بچوں سمیت تمام جانثاران کو بھی شہید کیا گیا۔جسموں پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ خیمے لوٹے گئے اور آخر انہیں جلا دیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی اور شہادت اپنی تاریخ کے اعتبار سے اسلام کا انتہائی اہم وقت تھا کیونکہ اسلام ساتویں صدی کے سب سے مشکل دور میں داخل ہوچکا تھا۔ حکومتی مظالم کے خلاف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا مؤقف حق اور سچ کی فتح بن کر سامنے آیا۔

اگر ہم حضرت علی کرم اللہ وجہ کے دورِ خلافت کی بات کریں تو حضرت امام حسین جنگوں کے دوران اپنے والد کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ آپ نے حضرت امیر معاویہ کے ساتھ اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے امن معاہدے کی پاسداری کی اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تاہم یزید کو ایک ولی عہد کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا۔

دراصل حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پرورش جن ہاتھوں میں ہوئی تھی وہ دستِ نبوت تھے اور وہ گھر اللہ کے آخری نبی ﷺ کا گھر تھا جہاں کے چشم و چراغ کا ایک ایک عمل تمام مسلمانوں کیلئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا تھا۔ اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی اطاعت قبول کرلیتے تو خاندان تو بچ جاتا لیکن دینِ اسلام کا شاید آج کوئی نام لیوا نہ ہوتا۔ 

ظاہر ہے کہ اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی اطاعت قبول کرتے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا کہ آپ نے معاذ اللہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جاں بخشی کیلئے یزید سے سمجھوتہ کر لیا، اس طرح رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کیلئے یہ مثال بن جاتی کہ ظلم سے لڑنے کی بجائے اس کے سامنے سر جھکانا ہی عین اسلام ہے، اس لیے آپ نے یہ نہیں کیا۔

اس حق پرستی اور بے باکی کی سب سے بڑی مثال وہ واقعہ ہے جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دیا بجھا کر اپنے جانثاروں کو اپنی جان بچانے کا پورا پورا موقع فراہم کرتے ہیں تاہم 72جانثاروں میں سے کوئی ایک بھی اٹھ کر جانے کو تیار نہیں ہوتا۔

ہر سال عاشورۂ محرم کی آمد، امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر اور تمام جانثاروں کی آپ کے ہمراہ شہادت کے واقعات پر گفتگو اہلِ اسلام کے ضمیر کو جھنجھوڑتی اور اسلام کی حقانیت پر بڑے بڑے سوال اٹھاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خود کو اسلام کا ماننے والا کہنے والے اسلام کی حقیقت کو سمجھیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے راستے پر چلیں۔ 

Related Posts