ہزارہ قتل عام، حکومت ذمہ داری پوری کرے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11کوئلے کے کان کنوں کی ہلاکت حیران کن ہے اور اس واقعہ کی ہر صورت مذمت کی جانی چاہئے۔ اس اندوہناک واقعہ نے ملک میں مظاہروں کو جنم دیا ہے اور ہزارہ برادری سراپا ء احتجاج ہے۔

کوئلے کے کان کنوں کو مسلح حملہ آوروں نے سوتے وقت اغواء کیا اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر قتل کیا گیاجبکہ مقتولین میں سے پانچ کا تعلق ایک ہی کنبہ سے تھا۔

متاثرین کے اہل خانہ نے انھیں تدفین سے انکار کردیا ہے جب کہ ہزاروں افراد نے میتوں کے ساتھ احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین نے انصاف اور مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کارروائی نہ کی گئی تو یہ ہلاکت دوسرے شہروں میں بھی پھیل سکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کا ایک اور بزدلانہ غیرانسانی فعل‘ قرار دیتے ہوئے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کاعزم کیا ہے اور متاثرین کے اہل خانہ کو یقین دلایا ہے کہ انھیں ہرگز فراموش نہیں کیا جائے گااور وزیراعظم نے شدید سردی کے دوران مقتولین کے ورثا کے احتجاج کے باعث وزیرداخلہ کو کوئٹہ بھیجا تاکہ لواحقین کو تسلی دیں۔

ہزارہ برادری کو مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے طویل عرصے سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں ایک آسان ہدف بنا دیا گیا ہے۔

حملوں اور بم دھماکوں کا سامنا کرنیوالی ہزارہ برادری کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہزارہ برادری کو کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے باوجود یہ کمیونٹی خطرات میں گھری ہوئی ہے۔

10 جنوری 2013 کو کوئٹہ میں بم دھماکے میں مجموعی طور پر 130 افراد ہلاک اور 270 زخمی ہوئے۔ ہزارہ افراد کو نشانہ بنانے والے دہشت گردی کے واقعے میں یہ ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔

متاثرین کے اہل خانہ نے بھی جاں بحق افراد کی تدفین سے انکار کردیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ فوج شہر میں سیکورٹی کا کنٹرول سنبھالے۔ تین دن کے بعد پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت وزیراعلیٰ رئیسانی کی بلوچستان حکومت کو برطرف کرنے پر مجبور ہوگئی، یہ ابھی تک ملک میں واحد حقیقی اقدام کا مشاہدہ ہے۔

حکومت کے اقدامات کے باوجود ہزارہ اور دیگر برادریوں پرحملے معمول کی زندگی ، تعلیم اور تقریباً نصف ملین افراد کی کاروباری سرگرمیوں کو نقصان پہنچا ر ہے ہیں۔

ریاست شہر میں سرگرم فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ضروری ہے کہ ریاست اقلیتی برادری کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

Related Posts