ایپل دنیا کی کامیاب ترین ٹیکنالوجی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے مگر موجودہ تیز رفتار مصنوعی ذہانت کے دور میں اس کی پیش رفت افسوسناک حد تک سست ہو چکی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایپل سروسز کے سربراہ ایڈی کیو نے خود اعتراف کیا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو آئندہ دہائی میں آئی فون جیسا فلیگ شپ پروڈکٹ متروک ہو سکتا ہے۔
جون 2025 میں ایپل کی ڈویلپرز کانفرنس کا انعقاد ہونا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر کمپنی مصنوعی ذہانت میں کسی بڑی تبدیلی یا پیش رفت میں ناکام رہی ہے۔ اگرچہ ایپل کے پروڈکٹس اسٹورز پر رش کا باعث بنتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اے آئی انقلاب کی دوڑ میں ایپل بُری طرح پیچھے رہ گیا ہے۔
گزشتہ سال کمپنی کی مارکیٹ ویلیو اس وقت 200 ارب ڈالر سے زائد بڑھ گئی تھی جب اس نے “ایپل انٹیلیجنس” نامی اے آئی نظام کا اعلان کیا۔
اُس وقت سی ای او ٹِم کُک نے مستقبل کے ایسے آئی فون کا تصور پیش کیا تھا جو ایک اسمارٹ اے آئی اسسٹنٹ کے طور پر کام کرے گا اور سری کو چیٹ جی پی ٹی سے بھی زیادہ ذہین بنانے کی امید دلائی گئی لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بھی اس وعدے کی کوئی عملی شکل سامنے نہیں آئی۔
فی الوقت ایپل کی شیئر ویلیو میں پانچواں حصہ کم ہو چکا ہے جو اس کے دیگر ٹیک حریفوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
دوسری جانب گوگل، میٹا، ایمیزون اور ژاؤمی جیسے ادارے اے آئی ٹیکنالوجی، جدید ہارڈویئر، اسمارٹ عینک اور خودکار اسسٹنٹس پر بے تحاشہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ اوپن اے آئی نے ایپل کے سابق ڈیزائن چیف جونی آئیو کی فرم کو 6.4 ارب ڈالر میں خریدا ہے تاکہ وہ ایک نیا اے آئی ڈیوائس تیار کر سکیں۔
ایپل اس تمام تر جدت کے مقابلے میں صرف ایک فولڈ ایبل فون لانے کا اعلان کر رہا ہے جو کہ موجودہ اے آئی کی دوڑ میں ناکافی قدم سمجھا جا رہا ہے۔
کمپنی کا ہمیشہ سے صارف کی پرائیویسی پر زور دینا جو اس کی پہچان رہا ہے، آج اے آئی کے دور میں اس کے لیے ایک رکاوٹ بن گیا ہے۔ جہاں جدید چیٹ بوٹس کلاوڈ ماڈلز کی مدد سے ترقی کر رہے ہیں، وہیں ایپل کے سخت پرائیویسی ضوابط اس کے چیٹ بوٹس کو صرف ایک آلہ تک محدود کر دیتے ہیں۔
اے آئی میں پیش رفت نہ کرنے کا نقصان ایپل کو طویل مدتی طور پر شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس کی سروسز سے ہونے والی آمدنی، جو آئی فون کی کم ہوتی فروخت کو سہارا دے رہی تھی، یورپی یونین میں ضوابط کی وجہ سے خطرے میں ہے۔
گوگل اس وقت ایپل کو ہر سال 20 ارب ڈالر صرف یہ ادا کرتا ہے کہ اس کا سرچ انجن ایپل ڈیوائسز پر ڈیفالٹ رہے۔ اگر گوگل پر اجارہ داری کے الزامات کے باعث عدالت نے یہ ادائیگی روک دی، تو ایپل کو دگنا نقصان ہو سکتا ہے۔
اسی طرح فورٹ نائٹ بنانے والی کمپنی ایپک نے ایپل کے خلاف 2020 میں اجارہ داری کا مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں الزام ہے کہ ایپل اپنی ایپ اسٹور پر 15 سے 30 فیصد کمیشن وصول کر کے تقریباً 31 ارب ڈالر سالانہ کماتا ہے، اور صارفین کو دیگر ادائیگی ذرائع سے محروم کرتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کو نہ اپنانے کی سزا نوکیا، کوڈک، اور جنرل الیکٹرک جیسی بڑی کمپنیوں کو بھی بھگتنا پڑی تھی۔ یہ تاریخ ایپل کے لیے ایک واضح انتباہ ہے کہ وہ AI اور جدت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک کرے۔
یہ سب کچھ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ٹِم کُک اپنی پرانی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔