پاکستان میں خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی اور تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی جبکہ حالیہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی مقامات خواتین کے لیے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔
خواتین مسلسل بری نگاہ رکھنے والے مردوں کی طرف سے بے حیائی اور بد کرداری پر مبنی کارروائیوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں جبکہ حال ہی میں کراچی اور اسلام آباد میں 2 واقعات منظرِ عام پر آئے۔
مذکورہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ مرد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کیلئے سرعام فحش حرکتیں کرتے ہیں۔ اتفاقیہ طور پر یہ عمل کیمرے میں قید ہو گیا جس کے نتیجے میں عوام میں غم و غصہ جنم لے چکا ہے، جس نے حکام کو معاملے کی تحقیقات کرنے پر مجبور کیا۔
اسلام آباد میں ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک شخص نے خاتون کے سامنے سرعام خود کو آگ لگا لی۔ یہ واقعہ شہر کے سب سے بڑے ایف نائن پارک میں پیش آیا جو کہ چند ماہ قبل وہاں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کے بعد سرخیوں میں آیا۔
دراصل خواتین کو نہ صرف گھر بلکہ عوامی سطح پر بھی مردوں کے سخت اور تسلط پسند رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر روز بس کی سواری کیلئے سڑکوں پر چلنا خواتین کیلئے کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔
عوامی مقامات پر قدم رکھنے والی ہر خاتون نے یا تومردوں کے ہاتھوں ہراسگی کا نشانہ بننے والی خواتین کو دیکھا ہوتا ہے یا پھر خود اس بد ترین فعل کا نشانہ بن چکی ہوتی ہے۔ اگر ان واقعات کی اطلاع گھر والوں یا رشتہ داروں کو دی جاتی ہے تو خواتین کو چپ رہنے کا کہا جاتا ہے یا پھر ہراسگی کا الزام الٹا خود ان پر ہی لگا دیا جاتا ہے۔
ہراسگی کے ان واقعات کی صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ خواتین کو کسی بھی تکلیف دہ تجربے سے بچنے کے لیے مرد محافظ کے بغیر عوامی مقامات پر تنہا سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
بہت سی خواتین جو جنسی حملوں اور صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہوتی ہیں ان کا تعلق نچلے اور متوسط طبقے سے ہے تاہم نہ تو ایسے واقعات پر قانونی کارروائی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان واقعات کے ذمہ داروں کو کوئی سزا دی جاتی ہے۔
اکثر ایسے واقعات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دو واقعات کے متاثرین نے شکایت درج نہیں کرائی۔ بڑے شہروں میں خواتین کی زندگی اب بھی دیہات کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ محفوظ سمجھی جاتی ہے۔
میڈیا میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کی خبریں عام ہیں، لیکن عوامی بدامنی کے معاملات کے ساتھ ساتھ انہیں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔اس میں قصور ہمارے فوجداری نظامِ انصاف کا بھی ہے جہاں ایسے افراد کو سزا دینے کی بجائے ”مک مکا“ یعنی رشوت لینے اور دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ضروری ہے کہ نظامِ انصاف ہراسگی کا شکار خواتین کی امداد کیلئے سامنے آئے اور خواتین پولیس افسران یا خواتین کی شکایات سے ہمدردی رکھنے والے افراد کو پولیس افسران تعینات کیا جائے۔
ایسی خواتین جو کسی ہراسگی یا جنسی زیادتی کے فعل کا خاموشی سے شکار بن جاتی ہیں، ان کیلئے یہ انتہائی تکلیف دہ بلکہ بھیانک تجربہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اس قسم کے واقعات کیلئے ایسی خواتین کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا بے حد تشویشناک ہے۔
ہر خاندان کے سرکردہ افراد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہراسگی اور تشدد ناقابلِ قبول چیزیں ہیں جن کے خلاف سماجی نظام کو آواز اٹھانا ہوگی۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ ہماری خواتین، بچیاں اور لڑکیاں اپنے گھروں اور عوامی مقامات پر ہر لحاظ سے محفوظ ہوں اور کوئی انہیں ہراساں نہ کرسکے۔