گوادر اسٹیڈیم کی بے مثال خوبصورتی اور پاکستان میں کرکٹ کا مستقبل

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوادر کرکٹ اسٹیڈیم اور پاکستان میں کرکٹ کا مستقبل
گوادر کرکٹ اسٹیڈیم اور پاکستان میں کرکٹ کا مستقبل

وطنِ عزیز پاکستان کی خوبصورتی ابھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے کیونکہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے کبھی سیر و سیاحت کے شعبے پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا، خاص طور پر شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کا خطہ ایسے بے شمار مقامات سے بھرا پڑا ہے جن سے خود پاکستان کے عوام بھی ناواقف نظر آتے ہیں۔

گزشتہ ماہ 31 جنوری کے روز انٹرنیشنل کرکٹ کاؤنسل نے گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بلوچستان کے گوادر کرکٹ اسٹیڈیم سے زیادہ اگر کوئی اور خوبصورت کھیلوں کا مقام ہوتو ضرور دکھائیں۔

آئیے ہم گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی مختلف معلومات کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وطنِ عزیز پاکستان میں کرکٹ کا یہ اسٹیڈیم عالمی سطح پر پاکستان کیلئے سیر و سیاحت کے شعبے میں کیا کیا انقلاب لا سکتا ہے۔

فخرِ عالم اور گوادر کرکٹ اسٹیڈیم 

غور کیجئے تو آئی سی سی کے مذکورہ پیغام میں پاکستانی گلوکار فخرِ عالم کو ٹیگ کیا گیا ہے۔ فخرِ عالم نے نہ صرف گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی تصاویر شیئر کیں بلکہ انہوں نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں انہوں نے مذکورہ اسٹیڈیم میں کرکٹ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

کرکٹ اسٹیڈیم کی پچ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے فخرِ عالم نے کہا کہ بیٹنگ کیلئے گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی پچ شاندار ہے لیکن یہاں کے مناظر انتہائی خوبصورت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو گوادر آ کر یہاں کے مقامی افراد کے ساتھ کرکٹ کھیلنی چاہئے کیونکہ وہ بہت اچھی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ 

سیکیورٹی صورتحال اور عالمی کرکٹ کی بحالی 

دنیا بھر میں کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ لوگ گھروں میں مقید رہنے کے بعد اب مختلف ایس او پیز کے تحت عجیب و غریب پابندیوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔

ایسے میں پاکستان میں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم آئی ہوئی ہے۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کا ایک کرکٹ میچ کراچی میں ہوچکا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں بحال ہوچکی ہے۔

دیگر ممالک سے کرکٹ کے مخِتلف شائقین اب پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کے بعد عالمی کرکٹ کی بحالی سمیت سیرو سیاحت کیلئے پاکستان ایک اہم ملک سمجھا جارہا ہے۔ 

اسٹیڈیم کی حقیقی خوبصورتی 

صرف آئی سی سی نے نہیں بلکہ آئی ایس پی این کرکٹ انفو نے بھی گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے خوبصورت کرکٹ کھیلنے کیلئے کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔

گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کے وسط میں سرسبز گھاس کا ایک خوبصورت قالین ہے جس سے دیگر اسٹیڈیمز کی بہ نسبت ایک الگ احساس جنم لیتا ہے۔ ایک طرف قلعہ نما پہاڑوں کے نشیب و فراز نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف وسیع و عریض میدان ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کی رائے اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان 

اس حوالے سے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میچز بھی گوادر کرکٹ اسٹیڈیم میں ہونے چاہئیں۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ ہمیں عالمی کرکٹ کے میچز کی میزبانی کرکے فخر محسوس ہوگا۔

بلوچستان کا خوبصورت شہر گوادر

نہ صرف کرکٹ اسٹیڈیم بلکہ گوادر شہر خود بے حد خوبصورت ہے۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے گوادر پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے جہاں دنیا کا سب سے بڑا بحری تجارتی راستہ واقع ہے۔

عالمی سطح پر گوادر پاکستان کی طرح اپنے شاندار محلِ وقوع اور جدید ترین بندرگاہ کے باعث مشہور ہے۔ گوادر کے لفظ کا مطلب ہوا کا دروازہ لیا جاسکتا ہے۔

یہاں کی ساحلی پٹی 60 کلومیٹر طویل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید بندرگاہ کی تعمیر سے گوادر کی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے اور دنیا بھر سے سیاحوں کے ساتھ ساتھ تاجر حضرات بھی گوادر کا رخ کر رہے ہیں۔

مستقبل میں پاکستان کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک چین، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی بحری تجارت گوادر کی بندرگاہ پر منحصر ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوادر ابتدا ہی سے پاکستان کا حصہ نہیں تھا بلکہ پاکستان نے اسے سلطنتِ عمان سے خریدا۔ 

ساڑھے 5 ارب روپے کا شہر 

سن 1958ء میں ستمبر کے دوران پاکستان نے 5 ارب 50 کروڑ روپے کے عوض عمان سے گوادر کا شہر خرید لیا۔ پاکستان نے گوادر کو تحصیل کا درجہ دیا، اسے ضلع مکران میں شامل کیا۔

یکم جولائی 1970ء کو پاکستان میں ون یونٹ کے خاتمے کے ساتھ بلوچستان کو بھی ایک صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی اور مکران بھی ایک باقاعدہ ضلع بن گیا۔ 1977ء میں مکران ایک ڈویژن بن چکا تھا۔

بعد ازاں یکم جولائی 1977ء کے روز گوادر، تربت اور پنجگور کے علاقوں کو بلوچستان میں اضلاع کی حیثیت حاصل ہوئی۔ گوادر کی یہ تاریخ مختلف حوالوں سے پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کافی دلچسپ ہے۔ 

تازہ ترین صورتحال 

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ گوادر رقبے کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا شہر قرار دیا جاسکتا ہے جس کی آبادی تقریباً 1 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ایک جزیرہ نما شہر ہے جس کے تین اطراف میں خوبصورت سمندر ہے۔

شہر کے اردگرد گہرے سمندر کے ساتھ ساتھ بلند و بالا چٹانیں خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہیں۔ زیادہ تر یہاں کے لوگ ماہی گیری سے گزارہ کرتے ہیں۔ مستقبل قریب میں گوادر ایک عالمی شہر ہوگا جہاں کی بندرگاہ نہ صرف ہمسایہ ممالک بلکہ قازقستان، تاجکستان، آذر بائیجان، ازبکستان اور ترکمانستان جیسے ممالک بھی استعمال کریں گے۔ 

کرکٹ کا مستقبل 

بلاشبہ پاکستان میں ہر دور میں ایسے ایسے نام پیدا ہوئے جنہوں نے کرکٹ کے میدان میں عالمی سطح پر وطنِ عزیز کا نام روشن کردیا۔ گوادر جیسے عالمی سطح پر مانے ہوئے اقتصادی حب میں سیاحوں کیلئے پرکشش کرکٹ اسٹیڈیم کی موجودگی خدا کا ایک اور عظیم احسان قرار دیا جاسکتا ہے۔

سیر و سیاحت کیلئے پاکستان جنت نظیر وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں، لق و دق صحرا اور خوبصورت میدانوں سے بھرا پڑا ہے جہاں گوادر کرکٹ اسٹیڈیم سیاحوں اور کرکٹ کے شائقین کیلئے ایک اور خوبصورت منزل ثابت ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سیاحوں اور شائقینِ کرکٹ کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ 

Related Posts