انسانی جسم کی فزیکل فٹنس کے متعلق قرآن و سنت کے رہنما اصول

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جسمانی صحت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ حضورﷺ کی حیات ِمبارکہ میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح جسمانی صحت کے شعبہ میں بھی رہنمائی موجود ہے۔

چنانچہ حضورﷺاپنے صحابہ کرام کو تیراندازی اور گھوڑسواری کی ترغیب دیا کرتے تھے(بحوالہ ترمذی) ،بلکہ ایک حدیث میں حضورﷺ کے دوڑ لگانے کا ذکر بھی موجود ہے(بحوالہ ابوداؤد) اور یہ تینوں جسمانی صحت کے لیے بہترین ورزشیں ہیں ۔ اسی طرح ایک حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک طاقتور مؤمن،کمزور مؤمن کے مقابلے میں بہتر ااور زیادہ محبوب ہے….الخ‘‘ (صحیح مسلم ، حدیث نمبر:2664)

نیز حضورﷺیہ دعا بھی مانگا کرتے تھے:
’’ اے اللہ! میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، کنجوسی سے اور بڑھاپے سے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2706)

حضور ﷺ کے مذکورہ بالاطرز عمل اور ارشادات سے سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ جسم کو تندرست ، طاقتور، صحت مند اور چست رکھنا اسلام میں پسند کیا گیاہے ا ور سستی اور کاہلی کو نہ صرف ناپسند کیا گیا ہے، بلکہ اس سے پناہ مانگی گئی ہے ۔

            انسان قوی ہو، طاقتور ہو، ومضبوط وتوانا رہے، اس کے لیے کوشش کرنا اور اسباب اختیار کرنابھی شرعا مطلوب ہے۔کیوں کہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’وَاَعِدُّواْ لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّن قُوَّۃٍ‘‘ (الانفال: ۶۰)، اسی سلسلہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : قوت والا مومن  اللہ تعالیٰ کے نزدیک کم قوت والے مومن سے بہتر اور زیادہ پیارا ہے’’المؤمن القوی، خیر وأحب إلی اللّٰہ من المؤمن الضعیف‘‘ اور یوں سب میں خوبی ہے۔

            جب قوت اللہ کے نزدیک پیاری چیز ہے تو اس کو باقی رکھنا او ربڑھانا اور جو چیزیں قوت کو کم کرنے والی ہیں ان سے احتیاط کرنا یہ سب مطلوب ہوگا، اس میں غذا بہت کم کردینا، نیند کا بہت کم کرنا، ہم بستری میں حد قوت سے آگے زیادتی کرنا،ایسی ـچیز کھانا جس سے بیماری ہوجائے یا بدپرہیزی کرنا، جس سے بیماری بڑھ جائے اور قوت کمزور پڑ جائے، قوت کو باقی رکھنے کے لیے دوڑنا، پیادہ چلنے کی عادت ڈالنا، جن اسلحہ کی قانون سے اجازت ہے یا اجازت حاصل ہوسکتی ہے، ان کی مشق کرنا، یہ سب داخل ہیں ۔اسی حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : تیر اندازی بھی کیاکرو اور گھوڑ سواری بھی (ترمذی) اور ایک روایت میں فرمایا کہ جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں (مسلم)

بقدر کفاف مال ضروری

            انسان کے پاس اپنی جان اور جسم کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے بقدر کفاف مال ہو اور فکروں سے آزاد ہو اوراسے فراغت قلب نصیب ہو یہ بھی شرعا مطلوب ومقصود ہے، چونکہ اللہ عزوجل نے مال کی تنگی سے جان میں پریشانی سے بچنے کا حکم دیا ’’ولا تبذر تبذیرا‘‘ (بنو اسرائیل : ۲۶)

            اسی لیے ایک روایت میں جان میں امن اور بدن میں صحت اور اس دن کے کھانے کی فراہمی کے ساتھ صبح کو باعث سعادت قرار دیا گیا، چنانچہ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جو شخص تم میں سے اس حالت میں صبح کرے کہ اپنی جان میں (پریشانی سے) امن میں ہو او ر اپنے بدن میں (بیماری سے) عافیت میں ہو اور اس کے پاس اس دن کے کھانے کو ہو ( جس سے بھوکا رہنے کا اندیشہ نہ ہو) تو یوں سمجھو کہ اس کے لیے ساری دنیا سمیٹ کر دے دی گئی‘‘(ترمذی)   اس حدیث مبارکہ سے صحت اور امن وعافیت اور بقدر کفاف مال کے حصول کا مطلوب ہونا معلوم ہوا ۔

            یہ بھی ارشاد گرامی ہے :’’ جو شخص حلال دنیا کو اس لیے طلب کرے کہ مانگنے سے بچارہے اور اپنے اہل وعیال کے (ادائے حقوق)  کے لیے کمایا کرے اور اپنے پڑوسی پر توجہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ایسی حالت میں  ملے گا کہ  اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند جیسا ہوگا ‘‘ (شعب الایمان)

            اس سے معلوم ہوا کہ کسب مال بقدر ضرورت دین بچانے کے لیے او ر ادائے حقوق کے لیے بڑی فضیلت کی چیز ہے ۔

            اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے جسم کی جان کی حفاظت کے لیے ان تین امور کا پاس ولحاظ رکھے، ہر کام کو اصول صحت کا پابند ہو کر شریعت کے احکام کی بجاوری کرتے ہوئے، صحت جسمانی، توانائی وقوت جسمانی اور اور بقدر مال کفاف کے حصول کے ساتھ یکسوئی وفراغت کے ساتھ متوجہ الی اللہ ہو، یہ مطلوب وشرعا محمود امر ہے، اس لیے اس کے لیے تگ ودو کرنا یہ در اصل شریعت کے احکام ہیں ، البتہ صحت وقوت کی برقراری اور مال کے حصول کو ذریعہ آخرت اور زاد روز محشر بنائے، ورنہ یہ توانیاں ، یہ فروانیاں ، یہ انگڑائیاں بسااوقات انسان کے لیے سوہان روح اور جہنم کا یندھن بن جاتی ہے، اس لیے ہر امر میں وسط واعتدال کے ساتھ صحت، وقوت اور حلال مال کی جستجو اور فروانی کے ساتھ متوجہ الی اللہ رہے، اپنی جان کی حفاظت کا حق ادا کرے تب ہی وہ حقوق اللہ وحقوق العباد کو تندہی کے ساتھ کرسکتا ہے، اللہ عزوجل توفیق ارزانی عطا کرے۔(آمین) 

Related Posts