جی ایس ٹی کی شرح کو 14فیصد تک کم کیا جائے، آغا شہاب احمد خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

KCCI President concerned over sudden rise in law & order incidents

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : کے سی سی آئی کے صدر آغا شہاب احمد خان نے کہا ہے کہ جی ایس ٹی کی شرح میں 3 فیصد کمی کرتے ہوئے17فیصد سے 14 فیصد کیا جائے جس سے کاروباری طبقوں پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے مقامی مارکیٹ میں طلب بڑھنے کے علاوہ تجارت، صنعت اور صارفین کو انتہائی ضروری ریلیف ملے گا۔

کے سی سی آئی کی طرف سے نشاندہی کی گئی بجٹ اناملیز کو اجاگر کرتے ہوئے، صدر کے سی سی آئی نے غیر رجسٹرڈ افراد کو فروخت پر 3 فیصد مزید ٹیکس واپس لینے کا مشورہ دیا تاکہ لین دین میں آسانی پیدا ہو اوررقت بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور سیلز ٹیکس میں تمام اداروں کو رجسٹر کرنے کا ذمہ دار بنایا جانا چاہیے تاکہ سپلائرز غیر رجسٹرڈ افراد کو مال فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں۔

آغا شہاب نے کہا کہ یہ ناانصافی ہے کہ رجسٹرڈ سپلائر کو غیر رجسٹرڈ افرادکے شناختی کارڈ کی کاپیاں مہیا کرنے اور 3فیصد مزید ٹیکس جمع کرانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ایف بی آر کو بیشتر ڈیٹا بیس تک رسائی کے ساتھ غیر رجسٹرڈ افراد کی شناخت کرنے اور انہیں سیلز ٹیکس ریجم میں لانے کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ایف بی آر کو مختلف اداروں اور تنظیموںبشمول ایف آئی اے، بینک، نادرا اور ایئرلائنز وغیرہ سے شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی کے اختیارات حاصل کرنے کے بعد شہریوں ، ٹیکس دہندگان کے لئے سکیورٹی رسک پیدا کردیا کیا گیا ہے لہذا اگر کوئی بھی افسر اس خفیہ معلومات کا غلط استعمال یا سمجھوتہ کرنے میں ملوث پایا جائے تو ایسے افسران سے نمٹنے کے لئے مناسب حفا ظتی قوانین اور مثالی جرمانے عائد کرنے کی دفعات کو بھی قانون میں شامل کیا جائے جبکہ معلومات تک رسائی صرف اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران تک ہی محدود رہنی چاہیے۔

صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ توانائی بخش مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بے پناہ اضافی کرتے ہوئے ایف ای ڈی کو 13فیصد سے بڑھا کر25فیصد کردیا گیا ہے جو ناانصافی ہے اورامتیازی سلوک کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ مصنوعات پاکستان میں موجود دو بڑی بیوریج کمپنیوں میں سے ایک کمپنی بنارہی ہے اور یہ کمپنیاں ملکی خزانے میں100ارب سے ذائد کی خطیر رقوم ٹیکسوں کی مد میں جمع کراتی ہیں۔ ایف ای ڈی میں غیر منصفانہ اضافہ کرکے صرف ایک کارخانہ دار کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔

انہوں نے سیکشن 45 بی کے تحت فنانس بل کی شق12کا حوالہ دیا جس میں ایک نئی ذیلی شق 5 کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس شق کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ قدرت کے قانون اور آئین کے دائرہ اختیار کے منافی ہے۔کسی ٹیکس دہندگان کو اپنے حقوق کا مقدمہ لڑتے ہوئے کسی بھی مرحلے پر ثبوت یا دستاویزی مواد پیش کرنے کا حق ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ کسی بھی ٹیکس دہندہ کو کیس کے کسی بھی مرحلے پر ثبوت اور دستاویزات پیش کرنے کے اختیار سے محروم نہ کیا جائے۔

انہوں نے پالیسی سازوں پر مزید زور دیا کہ وہ نئی مشینری کی خریداری پر ٹیکس کریڈٹ کی شرح کو کم سے کم 10 فیصد پر بحال کریں تاکہ صنعتکاری کو فروغ حاصل ہو جس کی اجازت 2019سے قبل دی گئی تھی تاہم فنانس بل 2020-21میں انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ ٹیکس کریڈٹ مالی سال 2025 تک لاگو ہونا چاہیے تاکہ صنعتوں کی پیداواری صلاحیت میں سرمایہ کاری کو بڑھایا جاسکے۔

کے سی سی آئی کے صدر نے خام مال کے کمرشل امپورٹرز پر 3 فیصد اضافی ویلیو ایڈیشن ٹیکس کے نفاذ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں مصنوعات میں کوئی قدر شامل نہیں کی جاتی وہاں وی اے ٹی نہیں لگایا جاسکتا لہٰذا اس اناملی کو درست کیا جائے اور فنانس بل میں خام مال کے کمرشل امپورٹرز پر3 فیصد ویلیو ایڈیشن سیلز ٹیکس لگانے کی شق کو ختم کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ ذائقے دار دودھ کو جولائی 2015 سے آٹھویں شیڈول میں ڈال دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ذائقے دار دودھ کی لاگت اور قیمتِ فروخت میں تیزی سے اضافہ ہوا جو کہ صحت مند ڈائٹ سپلیمٹ کی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور عوام میں کافی مقبول ہے۔ ڈیری کی صنعت میں ذائقے دار دودھ فی الوقت ابتدائی مراحل میں ہے لیکن زیادہ ریٹ پر سیلز ٹیکس اور اضافی ٹیکس کی وجہ سے اس شعبے میں نمو کو روک دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دودھ ، خشک دودھ اور دیگر اجزا زیرہ ریٹ ریجم میں موجود ہیں۔

انھوں نے قدرتی اجزاء سے بھرپور ذائقے دار دودھ دیگر مشروبات کی نسبت ایک صحت مند متبادل ہے باالخصوص بچوں کی نشونما کے لیے بہت مفید ہے نیز یہ اس کی درآمد کا متبادل بھی ہے اور زرمبادلہ کو بچاتا ہے لہٰذا مقامی طور پر تیار شدہ ذائقہ دار دودھ اور اس کے اجزاء، ذیلی اجزاء کو 8 ویں شیڈول سے خارج کیا جائے اور 5 ویں شیڈول میں داخل کرکے زیرو ریٹیڈ ریجم میں شامل کیا جائے نیز فنانس ایکٹ 2015 سے پہلے کی حیثیت بحال کی جائے۔

انہوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ فنانس بل سیکشن 8 کی شق ( ایم) کو حذف کیا جائے تاکہ رجسٹرڈ سپلائرز کو غیر ضروری قانونی چارہ جوئی میں جانے کی بجائے آزادانہ طور پر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت مل سکے جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو خیر ریونیو حاصل ہوگا۔

انہوں نے تجویز دی کہ آٹوموبائل، موٹرسائیکل اسپیئر پارٹس تیسرے شیڈول سے خارج کیا جائے اور کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ایڈیشنل سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس کی تشخیص کے لیے معمول کے ٹیکس ریجم میں شامل کیا جا ہے جو معیاری تشخیصی طریقہ کار کے تحت ہو۔آغا شہاب نے ایس آر او 351کو منسوخ کرنے کی سفارش کی جبکہ پی ایم سی اور پی وی سی کو ایس آر او 190 (I) 2002 میں خارج ہونے والی فہرست میں بحال کیا جائے۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ ایم ڈی ایف بورڈ کوایف ٹی اے کے تحت اجازت شدہ اشیاء میں سے نکالا جائے تاکہ مقامی صنعتوں کو نقصانات سے بچایا جائے جو صرف مقامی ضرورت کو ہی پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں نیز مختلف ایس آر اوز کے تحت درآمد پر دی جانے والی مراعات کو واپس لیا جائے اور پاکستان میں بنائے جانے والے ایم ڈی ایف بورڈ کی درآمد پر16 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے۔

انھوں نے کہا کہ خالی بیوریج کین پر 20فیصد کسٹم ڈیوٹی، 7 فیصد اضافی ڈیوٹی اور 5 فیصد ریگیولیٹری ڈیوٹی لگاکر المونیم بیوریج کین کے واحد کارخانہ دار کو بے پناہ تحفظ دیا گیا ہے جبکہ ویلیویشن رولنگ کو بھی اونچی سطح پر رکھا گیا ہے اور اس کارخانہ دار کو انکم ٹیکس و دیگر ٹیکسوں میں بھی چھوٹ حاصل ہے۔

اس عدم مساوات کی وجہ سے اجارہ داری قائم کر دی گئی ہے اور ایسی صورتحال میں مشروبات بنانے والے کارخانوں کے لئے کین درآمد کرناقابل عمل نہیں جن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں کہ وہ مقامی بیوریج کین بنانے والے کارخانے سے ہی خریدیں جس کی کوالٹی اور پائیداری کا ٹیسٹ کرنا ابھی باقی ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ مارکیٹ میں اجارہ داری کو روکنے اور مشروبات کی صنعت کو استحصال سے بچانے کے حوالے یہ ضروری ہے کہ فنانس بل2020-21 میں تجویز کردہ ڈیوٹی کی چھوٹ اور مراعات کی شرح کو یکساں کیا جائے اور المونیم بیوریج کین کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی زائد شرحوںکو کم کیا جائے۔بیوریج کین کے لیے تقریباً70فیصد خام مال درآمد کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں المونیم کوائلز کی کوئی مقامی پیداوار نہیں ہوتی اس وجہ سے ریونیو کی مد میں مستقل نقصان ہورہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ مشروبات کی مقامی صنعت کو مسابقتی بنانے اور مشروبات کے کین بنانے والے مقامی صنعتکار کی اجارہ داری کو روکنے کے لیے کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو 20 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کیا جائے اور مشروبات کی مقامی صنعت کو سپورٹ فراہم کرنے کے لیے 7فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی اور 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی واپس لی جائے کیونکہ یہ وہ صنعت ہے جو سب سے زیادہ ٹیکس دینے والوں میں شامل ہے اور اس کا مقابلہ درآمد شدہ اور اسمگل شدہ ڈبے والے مشروبات سے ہے۔

صدر کے سی سی آئی نے تجویز دی کہ ٹیکس قوانین (دوسری ترمیم) آرڈیننس2019 کے ذریعہ شامل سیکشن73کی دفعہ (4) کو حذف کیا جائے اور سپلائرز کو آزادانہ طور پر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے جبکہ غیر دستاویزی اداروں کی شناخت کی ذمے داری ایف بی آر کی فیلڈ پارمیشن کو سونپی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن108 بی کو حذف کرنا چاہیے تاکہ مینوفیکچررز غیر ضروری رکاوٹوں اور خوف کے بغیر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔

آغا شہاب نے فنانس بل 2020 کے توسط سے دو شقوں (پی اور کیو) کو شامل کرنے کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ ٹیکس دہندگان اور افسران کے مابین غیرضروری اختلافات اور غیر ضروری اپیلوں ، قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی سیکشن 21 کی دونوں شقوں کو فنانس بل 2020 سے خارج کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فنانس بل2020 کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کے سیکشن22 میں بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جس کے ذریعے اثاثوں میں نئے اضافے پر قابل اجازت ٹیکس فرسودگی کو50فیصد تک محدودکیا جائے گا۔ اس تبدیلی سے کاروبار باالخصوص صنعتی اقدامات کے ذریعے پلانٹ اور مشینری میں ہونے والی سرمایہ کاری کے مالی اخراجات پر منفی اثر پڑے گا۔ اس طرح کی تجویز کو تمام فریقین کے وسیع تر مفادات کے لیے منظورکئے جانے والے فنانس ایکٹ 2020 سے خارج کیا جانا چاہیے۔

آغا شہاب نے بتایا کہ فنانس بل 2020 کے توسط سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 131 میں بڑی تبدیلی کی تجویز پیش کی گئی ہے جو ٹیکس ڈیمانڈ کے 10 فیصد تک ادائیگی پر اپیلٹ ٹریبونل ان لینڈ ریونیو (اے ٹی آئی آر) کے سامنے بحیثیت کمشنر (اپیلز) ان لینڈ ریونیو سی آئی آر (A) کے زیر اہتمام اپیل دائر کرنے کو مشروط بنا تا ہے۔اس طرح کی تجویز کو غیر ضروری مقدمہ بازی سے بچنے کے لیے منسوخ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پولیسٹر فلامنٹ یارن پر 2.5 فیصد کی اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنا سراسر ناانصافی ہوگی جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری مسابقت کہو دے گی لہذا کے سی سی آئی 2.5 فیصد کی اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی ترک کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے جس کی سفارش فنانس بل 2020-21 میں کی گئی ہے۔

پولیسٹر فلامنٹ یارن ایک خام مال ہے اور تجارتی اور صنعتی درآمد کنندگان دونوں ہی ایس ایم ای سیکٹر کو یہ یارن فراہم کرتے ہیں لہٰذا یہ تجویزدی جاتی ہے کہ پولیسٹر فلامنٹ یارن کی درآمد پر کمرشل امپورٹرز اور مینوفیکچررز دونوں کے لیے 1.0فیصد کی یکساں شرح کا اطلاق کیا جائے۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کیخلاف کراچی کا مقدمہ لڑینگے،زبیر موتی والا،سلیمان چاؤلہ

انہوں نے زور دیاکہ وفاقی بجٹ کو صرف محصولات اور اخراجات کے تخمینے اور متعلقہ دفعات میں تبدیلیوں کی عکاسی کرنا چاہیے جو محصولات کے اقدامات کو قانونی حیثیت دیتے ہیں۔ ایف بی آر اور آئی آر عہدیداروں کے اختیارات اور منصب میں کوئی بھی تبدیلی الگ الگ بلوں کے ذریعے کی جانی چاہیے جس پر منظوری سے قبل پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔

انہوں نے اسٹیل انڈسٹری کو بچانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ وائر راڈ مینوفیکچررز کو دی جانے والی مراعات کو فنانس بل 2020 سے خارج کیا جائے۔ اس فیصلے سے پاکستان کی اسٹیل انڈسٹری کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی محصولات کی مد میں ہونے والے خطیر نقصانات سے تحفظ حاصل ہوگا۔ مزید برآں لانگ اسٹیل مصنوعات تیار کرنے والی بعض صنعتوں کو بندش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں اسٹیل صنعتوں نے اسٹیل مصنوعات کو مقامی طور پر تیار کرنے اور ملک میں روزگار پیدا کرنے کے لیے اپنی پیداواری صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔

یہ تمام تر اناملیز اور مسائل فنانس بل 2020-21 کی مختلف دفعات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جن پر کراچی چیمبر کی ٹیم ایف بی آر کی اناملی کمیٹی سے بحث میں اٹھائے گی تاکہ ان مسائل کو بجٹ 2020-21میں درست کیا جا سکے۔

Related Posts