یونان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 50سے زائد پاکستانی نوجوانوں کو یونان کی فوج نے گرفتار کرلیا۔فوجیوں نے پاکستانی نوجوانوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے گوجرانوالہ ڈویژن کے شہر سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں کے 50 سے زائد نوجوان ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان میں داخل ہورہے تھے کہ اس دوران یونان کی فوج نے انہیں گرفتار کرلیا۔
فوجیوں نے نوجوانوں کے کپڑے اتار کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں بے لباس چھوڑ کر واپس چلے گئے جبکہ نوجوانوں کے کپڑے بھی ساتھ لے گئے۔ نوجوان شدید سردی کی وجہ سے بیمار پڑنے لگے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ وسطی پنجاب کے علاقہ گوجرانوالہ اور اس سے ملحقہ شہروں میں متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے انسانی سمگلنگ عروج پر ہے۔ انسانی سمگلرز 14سے 30 سال کے نوجوانوں کو یورپ جانے کے سہانے خواب دکھا کر ڈینکی لگانے (غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے) پر راضی کرلیتے ہیں۔
انسانی اسمگلرز نوجوانوں کو 5 سے 7 لاکھ روپے ادا کرنے پر راضی کر لیتے ہیں۔انسانی سمگلروں کا یہ اتنا منافع بخش کاروبار ہے کہ وہ ان نوجوانوں سے پیسے پہلے وصول نہیں کرتے۔ اسمگلر جب نوجوان کو ترکی لے کر پہنچتا ہے تو نوجوان کے اہلخانہ اسمگلر کے پاکستان میں موجود نمائندے کو آدھی رقم ادا کر دیتے ہیں۔
اسمگلر نوجوانوں کے گروپ کا ترکی پہنچانے کیلئے ایران کا ویزہ لگواتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے ایرانی سفارتخانے کو بتایا جاتا ہے کہ ہمیں ایران مقدس مقامات کی زیارت کرنے کیلئے جانا ہے جس سے ایران کا ویزہ باآسانی مل جاتا ہے۔ ایران پہنچنے کے بعد چند روز تک تنگ کمروں(سیف) میں 10 سے 12 نوجوانوں کو فی کمرہ رکھا جاتا ہے۔
ایسے مقام پر پر لیٹنا تو دور، ٹھیک سے بیٹھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ بعد ازاں اسمگلر نوجوانوں کے گروپ کو ترکی کے بارڈر پر لے جاتا ہے جہاں پر نوجوانوں کے گروپوں کو ترکی تک پہنچانے کیلئے گروپوں کی بولیاں لگتی ہیں، جو ایجنٹ کم پیسوں کا مطالبہ کرے، پاکستانی ایجنٹ اپنے گروپ کے نوجوان اس کے حوالے کر دیتا ہے۔
اس سے آگے کا سفر بہت کٹھن، مشکل اور جان لیوا ہوتا ہے۔ ایران اور ترکی کے درمیان باکو کی سرحدی پہاڑی ہے جسے عبور کرنے کیلئے رات کے وقت کا انتخاب کیا جاتاہے۔ اس پہاڑی کو عبور کرکے ترکی میں داخل ہونے کیلئے کم از کم 6سے 10 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔
نوجوانوں کو پہاڑی عبور کرنے کیلئے ساری رات پیدل چلایا جاتاہے۔اس دوران انہیں پانی یا کھانے پینے کیلئے کوئی چیز میسر نہیں ہوتی۔ایران سے نکلتے وقت نوجوانوں سے موبائل فون بھی چھین لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایمرجنسی کی صورت میں کسی سے رابطہ بھی نہیں کرپاتے۔
10 گھنٹے تک پیدل سفر کرنے کے بعد نوجوان ترکی میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں پر سمگلر انہیں اپنی مخصوص جگہ پر منتقل کر دیتا ہے۔پاکستانی ایجنٹ ترکی میں نئے ایجنٹ کی خدمات حاصل کرتا ہے، یہاں پر نوجوان سے رائے لی جاتی ہے کہ تم نے پیدل یونان داخل ہونا ہے، گاڑی پر یا پھر کشتی کے ذریعے جانا ہے۔
تینوں ذرائع کے الگ الگ ریٹ مختص ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کی منشا کے مطابق انہیں یونان منتقل کر دیا جاتا ہے تاہم اس دوران فوج کے چھاپے کے خطرے کے پیش نظر گاڑی کوکھائی میں گرادیا جاتا ہے جبکہ کشتی کو ڈبو دیا جاتا ہے۔