معاملات کو حل کرنے کے لئے گریٹر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے،وزیر داخلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد:وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے اس کے لئے کسی سے اجازت درکار نہیں ہوتی ، اب معاملات کو حل کرنے کے لئے گریٹر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں حکومت ،اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ملکر میثاق جمہوریت ، امن اور معیشت کے لئے بات کریں اسکے بعد ملک ترقی ،معیشت بہتری اور لوگوں کی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔

وہ جمعرات کو سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے ۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ ملک اس وقت افراتفری اور انارکی کے دہانے پر کھڑا ہے ،اس کے لئے عمران خان نے 10 سال محنت کی ہے ، جب حکومت میں رہے تو ملک کی معیشت کا بھٹہ بیٹھا دیا ۔

انہوں نے کہاکہ اب معاملات کو حل کرنے کے لئے گریٹر ڈیبٹ اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل بیٹھ کر چارٹر آف ڈیموکریسی ، معیشت اور امن ہو اسی سے ملک بہتری کی طرف اور ملک مشکلات سے نکل سکتا ہے اور ملک کا سیاسی ٹمپریچر کم ہوسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور معزز بینچ کی رائے کی قدر کرتے ہیں اس کے لئے وہ لائحہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ملک میں بہتری آسکے ۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی قابو سے باہر نہیں ہوئی، ہماری مسلح افواج میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنائیں اس کے لئے وہ جانوں کا قربانیاں دے رہے ہیں اس وقت ملک کا ایک انچ بھی ایسا نہیں ہے جہاں ریاست کی رٹ برقرار نہ ہو ۔

انہوں نے کہاکہ ایک فریق پچھلے 10 سال سے اپنے مخالفین کے وجود کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اپوزیشن سے ہاتھ بھی نہیں ملانا جب تک یہ رویہ ختم نہیں ہوتا بات آگے نہیں بڑھ سکتی ۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر الیکشن کی تاریخ دیدی جائے تو پھر مذاکرات کس چیز کے لئے ہونگے ، پہلے معیشت پر بات ہوگی اسکے بعد سیاسی ٹمپریچر کو کم کریں گے پھر الیکشن کی طرف جائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ جب مل بیٹھے گے تو اس میں تمام امور پر بات ہوگی ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے اس کے لئے کسی سے اجازت نہیں لینی ہوتی ۔

مزید پڑھیں:حکومت کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا فیصلہ

سپریم کورٹ میں فاضل جج کی رائے پر تبصرہ نہیں کرسکتا ، بنچ ٹوٹ گیا ہے تو اس کی تشکیل نو ہونی ہے لیکن ہمارا مطالبہ ہے اس معاملے پرفل کورٹ بنچ بنایا جائے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تکنیکی اور آئینی مسئلے کو چیف جسٹس بہتر انداز سے حل کریں گے ۔