پنجاب حکومت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کے معاملے پر فراہم کردہ دستاویزات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے میڈیکل رپورٹس مانگ لی ہیں، پنجاب حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے مراسلے میں نوازشریف کوہدایت کی گئی ہے کہ 3 دن کے اندر رپورٹس فراہم کرنے جبکہ رپورٹس نہ فراہم کرنے کی صورت میں حکومت اپنا فیصلہ کر دے گی۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف العزیزیہ ریفرنس کیس میں 7سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے جب طبیعت بگڑنے پر انہیں سروسز اسپتال منتقل کیا گیا تھاتاہم لاہور ہائی کورٹ نے 25 اکتوبر کو نوازشریف کو ضمانت دی تھی ۔
29 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر نوازشریف کو 8ہفتوں کی ضمانت دیتے ہوئے بوقت ضرورت مزید توسیع کے لیے پنجاب حکومت سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد 16 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا جس کے بعد علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔عدالت نے نوازشریف کو علاج کی غرض سے 4ہفتے کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی جو پورے ہوچکے ہیں۔
ہائیکورٹ کے فیصلے میں واضح لکھا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اپنا علاج کرائیں اور جب صحت مند ہو جائیں تو واپس آجائیں تاہم ان کے صحت مند ہونے کا پیمانہ میڈیکل رپورٹس ہیں جنھیں عدالت اور حکومت کسی بھی میڈیکل فورم سے تصدیق کرا سکتے ہیں۔
نوازشریف کی صحت کے حوالے سے ملک میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا تھا حکومت اور ن لیگ کی جانب سے الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی تھی تاہم عدالت کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد نوازشریف بیرون ملک علاج کیلئے سدھار گئے تاہم گزشتہ دنوں ایک ریسٹورنٹ میں نوازشریف کی تصاویر نے ملک میں نئی بحث چھیڑ دی ہے اس لیئے حکومت نے بھی سخت روایہ اختیار کرلیا ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے ان کی صحت سے متعلق نئی معلومات فراہم کردی ہیں۔ڈاکٹر عدنان نے کہا ہے کہ نواز شریف کو آئندہ چند روز میں کارڈیک سینٹر میں داخل کیا جائے گا جہاں ان کی دل کی شریانوں کے پیچیدہ مرض کا علاج ہوگاتاہم پنجاب حکومت نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس کی فراہمی پر مصر ہے تاہم اگر سابق وزیراعظم کی حالت واقعی خراب ہے تو میڈیکل رپورٹس فراہم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ایسا تاثر بھی مل رہا ہے کہ اندرون خانہ مسائل سے نمٹنے کے بعد حکومت نے ایک بار پھر اپوزیشن کو نشانے پر رکھ لیا ہے تاہم حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات جس بھی سطح پر ہوں،ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رہنی چاہیے اور ملک میں کوئی افراتفری کی صورتحال نہیں پیدا ہونی چاہیے۔