حکومت کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان اور کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان تقریباً 2 ہفتوں سے افغانستان میں ہونے والی براہ راست آمنے سامنے بات چیت کے نتیجے میں ملک گیر جنگ بندی کا اعلان کرنے کیلئے ایک عارضی مفاہمت ہوئی، جس میں متعدد ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے کچھ پیدل جنگجوؤں کی رہائی کی شرط عائد کی گئی جس کا مقصد دونوں فریقین کے مابین اعتماد سازی تھا۔

تاحال حکومت نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت کی تصدیق نہیں کی اور یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ پاکستان کی حراست میں کتنے عسکریت پسندوں کو آزادی دے دی جائے گی، لیکن ذرائع نے بتایا کہ یہ تعداد ان 2 درجن سے زیادہ پیدل جنگجوؤں سے زیادہ نہیں جنہوں نے ملک میں دسیوں ہزار افراد کو ہلاک کیا ہے۔

ایک ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے ترکی کے سرکاری ٹی وی پر انکشاف کیا تھا کہ حکومت پہلے ہی دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات میں مصروف ہے جس کے دوران مذاکرات کی نوعیت سے متعلق بھی کچھ اشارے دستیاب ہوئے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے کچھ گروپ امن اور مفاہمت کیلئے حکومت سے بات کرنا چاہتے تھے۔ اور ہم کچھ گروپوں کے ساتھ  مذاکرات کر رہے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کی طرف سے ٹی ٹی پی کے ساتھ کون مذاکرات کر رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے مظالم پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ نہ ہی حکومت ماضی کی طرح اس پیشگوئی پر آنکھیں بند کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے کہ ٹی ٹی پی امن معاہدوں کی کسی بھی وقت خلاف ورزی کرسکتی ہے۔ 

گزشتہ کئی سال سے ٹی ٹی پی نے ریاست کی رٹ کو ختم کرنے کی کوشش کی، اور قبائلی خطے اور اس سے آگے کے علاقوں میں تنازعات کو روکنے اور ذاتی حقوق کو روکنے کے لیے اسلامی شریعت کے نام پر اپنا برانڈ نافذ کیا۔ ہزاروں افراد مارے گئے جس میں فوجی، قبائلی عمائدین، سیاستدان اور عام لوگ شامل تھے۔

آگے چل کر 2014 میں ریاست ہوش میں آئی جب دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے اتفاق رائے پر مبنی نیشنل ایکشن پلان متعارف کرانے کی پاداش میں 144 افراد کا قتلِ عام ہوا جن میں اکثریت اسکول کے بچوں کی تھی۔اس دوران اچھے اور برے طالبان کو الگ الگ شناخت کے ساتھ دیکھنے کا راگ الاپا گیا، لیکن ہم ماضی کے اس دور میں واپس جانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ 

یہ سچ ہے کہ اندرون ملک سنگین معاشی حالات اور افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال نے پاکستانی حکام کو ٹی ٹی پی کے چیلنج کو حل کرنے کے لیے دوگنا پریشان کر دیا ہے۔ تاہم حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو مذاکرات کی شرائط سے آگاہ کرے۔ اپوزیشن جماعتیں یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔

کسی بھی عام طور پر قابل قبول تصفیے کو عوامی نمائندوں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ یہ علم ہونا چاہئے کہ مفاہمت کیلئے کیا معاہدہ کیا گیا، اس لیے اسے واضح طور پر بیان کرنے کی ضرورت ہے

Related Posts