گلگت بلتستان کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گلگت بلتستان میں الیکشن ہوگئے ،وفاق میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت سرتوڑکوشش کے باوجود الیکشن میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کرسکی جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے ان انتخابات کے نتائج کومستردکرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات عائدکیے ہیں ۔

آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ کیاواقعی ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ؟،گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرکے24 جون کوختم ہوئی ،نگراں  حکومت قائم ہوتے ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے دو جولائی کو انتخابات کاشیڈول جاری کرتے ہوئے 18اگست کوووٹنگ کی تاریخ مقررکی گئی تھی۔

اب یہاں سے اصل کھیل شروع ہواپاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروںسے درخواستیں طلب کیں توپتہ چلاکہ ان کے پاس توبندے ہی موجود نہیں ہیں جن افرادنے ٹکٹ کے لیے درخواستیں دی ہیں وہ الیکشن میں کامیابی کے اہل نہیں۔

الیکشن آگے کرنے کے لیے حیلے بہانے شروع کردیئے گئے اوردس جولائی کوبندکمرے میں اجلاس ہواجس میں مختلف وجوہات کوجوازبناکرانتخابات اگست کی بجائے اکتوبرمیں کروانے کااعلان کیاگیامگر چھوٹی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی ،جمعیت علماء اسلام سمیت دیگر بڑی جماعتوں نے اس پراتفاق نہ کیالیکن ا س پراحتجاج بھی نہیں کیاجبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اس معاملے کوسنجیدہ نہ لیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے ا س دوران مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی،جے یوآئی اوردیگرجماعتوںکے الیکٹیلزسے رابطے کرکے انہیں توڑنے کی ابتداء کی تودوسری طرف الیکشن کمیشن نے اکتوبرمیں الیکشن کاشیڈول جاری نہ کیا ۔یہ کھیل چلتا رہا لیکن اپوزیشن جماعتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔مسلم لیگ ن کے وزاراء اوردیگرجماعتوں کے رہنمائوں کولالچ یاڈرادھمکاکرپی ٹی آئی میں شامل کیاگیا جب جیتنے والے گھوڑے پورے ہوگئے تو وفاقی حکومت کی طرف سے 23ستمبرکوکہاگیا کہ الیکشن پندرہ نومبرکوہوں گے مگرکسی نے اس دھاندلی کے خلاف آوازنہ اٹھائی ؟۔

الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے دھاندلی کے دوسرے مرحلے کاآغازکیا اورالیکشن کمیشن اس معاملے میں بالکل بے بس نظرآیاالیکشن کمیشن کی طرف سے ضابطہ اخلاق جاری کیاگیا کہ شیڈول جاری ہونے کے بعد وزیراعظم سمیت کوئی وفاقی وزیراورمشیرگلگت بلتستان کادورہ کرے گا اورنہ پروجیکٹس کااعلان کرے گا مگراس ضابطہ اخلاق پرایک فی صدبھی عمل درآمدنہیں ہواوفاقی وزاراء کی بارات گلگت بلتستان میں داخل ہوگئی ۔

اربوں روپے کے پروجیکٹس کااعلان کیاگیا، بجٹ میں آٹے پرسبسڈی ختم کرنے والی حکومت نے مفت آٹاتقسیم کیا ،وزیرامورکشمیرعلی امین گنڈہ پورنے سرعام اعلانات کیے کہ ووٹ دواورپیسے لو، ضمیروں کی خریدوفروخت کی گئی جہاں لالچ سے کام نہ چلاتووہاں دھمکی سے کام چلایاگیا اس پربھی کام نہ بناتووزیراعظم خود میدان میں کود پڑے اورالیکشن سے دوہفتے قبل گلگت بلتستان کادورہ کرکے گلگت بلتستان کوصوبہ بنانے کااعلان کیا اورالیکشن کمیشن نے آنکھیں بندکیے رکھیں ۔

الیکشن سے تین دن قبل وزیرامورکشمیرکی طرف سے اسلامی تحریک کے ایک امیدوار کو اپنا مشیر مقرر کرنے کانوٹیفکیشن جاری کیاگیا، نگراں  حکومت میں ایسے لوگ شامل کیے گئے کہ جن کے قریبی رشتے دارپی ٹی آئی کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے ،اس سارے معاملے پرسنا گیاکہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتارہاہے ۔مطلب یہ تھا کہ تبدیلی کے دعویدار بھی اب یہ مان چکے ہیں کہ ان میں اورپہلے والوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ یہ پہلے والوں سے بھی دوہاتھ آگے ہیں۔

تبدیلی کانعرہ ایک دھوکہ تھا ،لوٹوں کی خریداری اگرپہلے صرف جائزتھی توپی ٹی آئی والے ہارس ٹریڈنگ کوفرض سمجھتے ہیں ،پری پولنگ دھاندلی اگرپہلے چھپ چھپاکرکی جاتی تھی توتبدیلی کے دورمیں یہ دھندہ سرعام کیاجاتاہے ،ضابطہ اخلاق کی اگرپہلے معمولی خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں توخان کے دورمیں سرعام ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں ،ماضی کے حکمران الیکشن سے دوماہ قبل سروے جاری کرتے تھے یہ پی ٹی آئی ہے کہ جب وہ جیتنے والے لوٹے پورے کرلیتی ہے توالیکشن سے تین دن قبل سروے جاری کرواتی ہے کہ وہ جیت رہے ہیں۔

پہلے والوں پرالزام تھا کہ وہ ٹھپے لگاتے ہیں توپی ٹی آئی کے دورمیں یہ تبدیلی آئی کہ جہاں دس پوسٹل بیلٹ تھے وہاں سوپوسٹل بیلٹ پیپرجاری کرکے ٹھپے لگائے گئے مگراس سارے عمل کودھاندلی نہیں کہیں گئے کیوں کہ یہ تبدیلی سرکارہے ؟۔

اب ذراالیکشن نتائج کی بات کی جائے تویہ اس لیے حیران کن ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران اگرجلسوں اورعوامی وابستگی کاجائزہ لیاجائے توبلاول بھٹونے گلگت بلتستان کی تاریخ میں سب سے کامیاب اوربڑے جلسے کیے ،جلسوں کے اعتبارسے بلاول بھٹوپہلے نمبرپررہے جبکہ مسلم لیگ ن جلسوں کے اعتبارسے دوسرے نمبرپررہی اگرچہ مریم نوازنے تاخیرسے گلگت بلتستان کارخ کیا مگرانہوں نے بھی زبردست مہم چلائی جبکہ پی ٹی آئی جلسوں کے اعتبارسے تیسرے نمبرپرتھی مگرانتخابی نتائج کے اعتبارسے پی ٹی آئی پہلے نمبرپررہی حالانکہ اس کے اکثرالیکٹیبلزشکست کھاگئے حتی کہ پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کے امیدواربھی کامیاب نہ ہوسکے ۔

یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے گلگت دوسے 6سوسے زائدووٹوں سے جیتنے والے جمیل احمد کوراتوں رات ہراکر پی ٹی آئی کے فتح اللہ کودووٹوں سے کامیاب کروایاگیا جوکہ وزیراعلیٰ کے امیدوارہیں اور پیپلز پارٹی نے اس کے خلاف شدیداحتجاج کیاہے ۔

یہ تووفاقی حکومت کی بات تھی اب ذرااپوزیشن جماعتوں کابھی جائزہ لے لیاجائے کہ ان سے کہاں غلطیاں ہوئی ہیں اپوزیشن جماعتیں اگر مل کرالیکشن میں حصہ لیتیں توانہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، بلاول بھٹواورمریم نوازالیکشن سے دودن قبل ملاقات کی اگریہ یہ ملاقات ایک مہینہ یاپندرہ دن پہلے ہوجاتی تونتائج مختلف ہوتے ،دونوں بڑی جماعتوں نے فیصلہ کرنے میں تاخیرکی ۔صوبائی جماعتوں کواس حوالے سے ہوم ورک پہلے مکمل کرکے مرکزی قیادت کوآگاہ کردیناچاہیے تھا مگرشایدبلاول بھٹوکسی جھانسے میں آگئے تھے یاانہیں تنہاالیکشن جیتنے کازعم تھا ۔

اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کوبھی دیکھناچاہیے کہ حافظ حفیظ الرحمٰن پانچ سال کن لوگوں کے نرغے میں رہے ؟حالانکہ حافظ حفیظ الرحمٰن کی تعمیروترقی کے حوالے سے کارکرگی نہایت بہتررہی ،علاقے میں امن وامان کے حوالے سے بھی ان کاکردارنہایت مثبت رہامگردیکھناہوگا کہ وہ اپنے وزراء کوقابوکرنے میں کیوں ناکام ہوئے ؟ان وزراء نے پانچ سال موجیں اڑانے کے بعد پی ٹی آئی میں کیوں چھلانگیں لگائیں؟۔وہ بہترحکمت عملی سے جماعت کومضبوط کیوں نہ کرسکے اوراپنی کارکردگی کو کیوںکیش نہ کرواسکے ؟۔

جہاں تک جمعیت علماء اسلام اورجماعت اسلامی کی بات ہے توجے یوآئی کی صوبائی قیادت سے کارکن نالاں ہیں یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے جیتنے والے امیدواریادیگرجماعتوں میں چلے گئے یاآزادحیثیت سے الیکشن میںحصہ لیا جس کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام بمشکل ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی حالانکہ جے یوآئی دوسے تین نشستیں بآسانی حاصل کرسکتی تھی ۔

ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ مقامی قیادت نے ٹیکنوکریٹ کی ایک نشست حاصل کرنے کے لیے جماعت کی ساکھ کوداؤپرلگایااورمرکزکوغلط رپورٹس دی گئیں جبکہ جماعت اسلامی کی تنہاپروازنے انہیں مزید تنہاکردیاہے ۔

یوں محسوس ہوتاہے کہ جماعت اسلامی نے گلگت بلتستان کے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا ؟جمعیت علماء اسلام اورجماعت اسلامی کی مقامی قیادت کواپنی پالیسیوں پرنظرثانی کرناہوگی ۔گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن میں ایک چیزواضح ہوئی ہے کہ مذہبی جماعتوں کاووٹ بینک کم ہواہے اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کوضرورغووفکرکرناچاہیے ۔

پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مجلس وحدت مسلمین کاصرف ایک امیدوارکامیاب ہوا اور اسلامی تحریک کاایک بھی امیدواربھی کامیاب نہیں ہوسکاحالانکہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہاں 60سے 70فی صدووٹرمذہبی یامسلکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مذہبی ووٹرسیاسی جماعتوں میں چلاگیاہے یاسیاسی جماعتیں مذہبی کارڈاستعمال کررہی ہیں ؟ان کے مقابلے میں قوم پرستوں کاووٹ بینک برقرارہے بلکہ بڑھ رہاہے قوم پرست رہنماء نوازخان ناجی مسلسل تیسری مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں ۔

گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن نتائج نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ مستقبل میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کاتعین ہوناہے ،یہ نہایت حساس معاملہ ہے اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ مسئلہ کشمیر پر دوررس اثرات مرتب کرے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کے کئی اہم پروجیکٹس مکمل ہونے کے بعد اس خطے کی اہمیت مزیدبڑھ جائے گی پانی اوربجلی (بھاشاڈیم سمیت)کے اہم منصوبے زیرتکمیل ہیں، یہاں جوبھی حکومت بنے گی وہ آزادامیدواروں کے رحم وکرم پرہوگی ان میں زیادہ ترپہلی مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں اور ظاہرہے کہ ناتجربہ کار اورآزادامیدواروں کے سہارے بننے والے حکومت نہایت کمزورہوگی اورکمزورحکومت یہ بڑے بڑے فیصلے کیسے کرپائے گی ؟۔

Related Posts