ویب 3.0 پر مردوں کی اجارہ داری

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ساری دنیا ویب 2.0 کو چھوڑ کر ویب 3.0 کے گن گاتی نظر آتی ہے تاہم اس دوران ایک بڑے سوال نے تکنیکی جنات (ٹیکنالوجی جائنٹس) کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے اور وہ یہ ہے کہ ویب 3.0 کی قیادت پر مردوں کی اجارہ داری کیوں ہے؟

اگر قارئین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ویب 2.0 اور 3.0 کیا ہیں یا ان میں کتنا زمین آسمان کا فرق ہے تو ذیل میں دئیے گئے لنک پر کلک کرکے اس کے متعلق پڑھ سکتے ہیں۔ جن باتوں کا ذکر گزشتہ کالم میں ہوچکا، انہیں یہاں دہرانا وقت کے ضیاع سے بڑھ کر کچھ نہ ہوگا۔ 

یہ بھی پڑھیں:

ویب 3.0 کا آغاز، دُنیا کس طرف جا رہی ہے؟

قصہ کچھ یوں ہے کہ جب بھی کسی نئی ٹیکنالوجی کی بات ہوتی ہے تو اس پر سب سے پہلے قبضہ طاقتور لوگ ہی کرتے ہیں، مثال کے طور پر فیس بک اور ایمازون کے بانی کون تھے؟ مائیکرو سافٹ کس کی کمپنی ہے؟ اگر غور کیجئے تو یہ سب کچھ مغربی ممالک کے پاس ہے اور ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک صرف ان کے صارفین ہیں، اور کچھ نہیں۔

شاید کچھ ایسا ہی حال ویب 3.0 کا ہے جس پر یہ الزام ہے کہ اس کے کرتا دھرتا زیادہ تر مرد حضرات ہیں اور این ایف ٹی سمیت دیگر ٹیکنالوجیز پر سب سے آگے جو لوگ ہیں وہ خواتین اور مرد برابر برابر نہیں بلکہ زیادہ تر مرد ہی ہیں اور یہاں ہمیں یہ جاننا ہے کہ اگر واقعی ایسی کوئی بات ہے تو کیوں؟

ماضی کے جھروکوں میں جھانکیے تو 1995 میں 37 فیصد کمپیوٹر سائنسدان خواتین تھیں اور آج یہ تناسب گھٹ کر 24 فیصد رہ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نئی ٹیکنالوجی کو اسی طرح خواتین سے دور رکھا جاتا رہا تو یہ شرح بتدریج گرتی چلی جائے گی۔ تحقیق بتاتی ہے کہ 38 فیصد خواتین ٹیکنالوجی انڈسٹری سے دور اس لیے ہیں کیونکہ انہیں اس شعبے میں داخلے سے روکا جاتا ہے۔

تحقیق سے مزید ثابت ہوا ہے کہ صرف 19 فیصد خواتین کو ہی ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھنے کیلئے رول ماڈل کے طور پر خواتین نظر آئی تھیں، باقی ماندہ خواتین کسی مرد کو دیکھ کر ہی شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دینے اور رکاوٹوں کو عبور کرکے آگے بڑھنے لگیں جس سے اس شعبے میں خواتین رول ماڈلز کا فقدان صاف ظاہر ہے۔

سب سے بڑے میٹا ورس پلیٹ فارمز جن میں فورٹ نائٹ، سینڈ باکس، روبلاکس اور میٹا یعنی فیس بک شامل ہیں، ان پر سفید فام مرد ہی قابض ہیں جبکہ سی او او کے کردار میں وہاں صرف 2 ہی خواتین نظر آئیں جب کہ جن پلیٹ فارمز کی نمائندگی خواتین نے کی ہو، وہ فنڈنگ کے معاملے میں سب سے پیچھے نظر آتے ہیں۔

دراصل یہ میٹا ورس پلیٹ فارمز جن کی ہم بات کر رہے ہیں، یہ ویب 3.0 کی ابتدائی شکل قرار دئیے جاسکتے ہیں کیونکہ ویب 3.0 تاحال ارتقائی مراحل میں ہے جس کو بے شمار چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے اور شاید ایسا اس لیے ہو کہ دنیا کی کم و بیش 50 فیصد آبادی کو اس شعبے سے دور رکھا جارہا ہے۔ مرد اکیلے ہی تمام تر مسائل کا بوجھ اٹھانا اور تمام تر انعامات اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں این ایف ٹی کی صرف 16 فیصد سیلز سے حاصل ہونے والی رقم کی مالک خواتین آرٹسٹ بنائی گئیں جبکہ تقریباً 84 فیصد رقوم مردوں نے حاصل کیں اور جہاں تک ان خواتین کی بات ہے جو سیاہ فام تھیں تو اعدادوشمار اس سے بھی کہیں زیادہ برے رہے۔

حیرت انگیز طور پر دنیا کی سرکردہ کرپٹو کمپنیز کے 121 رجسٹرڈ بانیوں میں سے صرف 5 فیصد خواتین ہیں اور ویب 3.0 میں کرپٹو کرنسی ہی اہم کردار ادا کرنے والی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کا مسئلہ ہم 21ویں صدی میں سامنے آنے والی جدید ترین ٹیکنالوجی میں ساتھ لے کر جا رہے ہیں یعنی وہی مردو زن کی تفریق۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید دنیا ویب 3.0 سمیت دیگر ٹیکنالوجیز میں خواتین کی اہمیت کو سمجھے اور انہیں بھی اپنے ساتھ لے کر چلے۔ اگر کوئی ٹیکنالوجی ترقی کرتی ہے تو اس میں خواتین کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ ہمیں صرف ترقی یافتہ و مہذب کہلانے کی ہی ضرورت نہیں بلکہ ہمارا رویہ بھی ترقی یافتہ و مہذب انسانوں جیسا یعنی ہرقسم کے صنفی امتیاز سے بالاتر ہونا چاہئے۔ 

Related Posts