سبز توانائی کوقابل تجدید توانائی کے طور پر جانا جاتا ہے یہ قدرتی وسائل سے حاصل کردہ توانائی کی شکل ہے۔ دھوپ ، لہریں ، ہوا اور قومی ماحول کو تباہ نہیں کرتیں بلکہ ماحول دوست ہونے کے علاوہ انسانی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہیں۔
بارش ، بائیو ماس اور تھرمل توانائی زمین پر ہر جگہ بہت زیادہ دستیاب ہیں۔ یہ وسائل عملی طور پر غیر سبز / غیر قابل تجدید توانائی کے مقابلے کاربن کے نقش یا آب و ہوا میں تبدیلی کا سبب نہیں بنتے ہیں۔
قابل تجدید توانائی کی کھپت نہ صرف حیاتی ماحول ،ماحولیاتی نظام اور ماحول کو متاثر کرتی ہے بلکہ انسانی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اگرچہ غیر قابل تجدید توانائی نقصان دہ ہے لیکن پھر بھی جیواشم ایندھن ، قدرتی گیس اور کوئلہ کو جلانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
اس سے آب و ہوا اور درجہ حرارت میں تبدیلی ہوتی ہے جس سے گلیشیرز پگھلنے اور غیر موسمی بارش کا مسئلہ ہونے کے ساتھ خوراک کی حفاظت اور صحت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔
گلوبل قابل تجدید توانائی برادری کے مطابق 2011 کے بعد سے سبز توانائی کی کھپت کا رجحان غیر سبز توانائی کے مقابلے میں پھیل رہا ہے۔
2019 میں سبز توانائی کی کھپت 200 گیگا واٹ سے زیادہ کے سنگ میل کو پہنچی ہے لیکن بدقسمتی سے قابل تجدید توانائی کی کھپت کے مقابلے میں پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی کھپت اب بھی غالب ہے تاہم پاکستان چھٹا سب سے زیادہ مقبول ملک ہے جسکے پاس بغیر کسی رکاوٹ توانائی کی فراہمی کے ذرائع موجود ہیں۔
اگرچہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے یعنی ہرے اور غیر سبز دونوں توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان توانائی کی بڑھتی طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ بجلی کی طلب اور رسد کے مابین فرق واضح ہے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا یہ موجودہ مسئلہ راتوں رات نہیں ہوا ہے۔ اس شدید پریشانی کی اصل وجہ پچھلی چند دہائیوں کی بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی ہے۔
تاریک راتوں کے علاوہ بجلی کی قلت تجارتی کاموں کی استعداد کو کم کرتی ہے لہٰذا نہ صرف پاکستان کے گھرانے ہی شمسی توانائی ، ونڈ ٹربائن اورگرین انرجی کے استعمال کی طرف گامزن ہیں بلکہ تجارتی اور بڑے پیمانے پر اسٹیک ہولڈر گرین انرجی خصوصاً شمسی توانائی استعمال کررہے ہیں۔
پاکستان میں اوسط دھوپ 8 گھنٹے 20 منٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے اور بہت ہی کم دن ابر آلود ہوتا ہے۔ پاکستان میں توانائی پیدا کرنے والے کئی بڑے پلانٹ پہلے ہی کامیابی کے ساتھ لگائے گئے ہیں اور دیگر تکمیل کے مراحل پر ہیں۔
توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لئے صوبہ پنجاب نے 5 ہزار ایکڑ اراضی کے اندر ایک بڑا شمسی پلانٹ لگانے کا اعلان کیا اور اسے قائد اعظم سولر پارک کا نام دیا۔
کچھ دیہاتوں میں مقامی تنظیم نے 100 شمسی پینل کا استعمال کرتے ہوئے توانائی پیدا کرنے والے شمسی پلانٹ خریدکر بجلی فراہم کی۔
ونڈ پلانٹ کی صورت میں پہلے ہی صوبہ سندھ کے شمال مغربی حصے میں ونڈ پاور پلانٹ لگایا گیا ہے، صوبہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بجلی کی طلب میں رسد کے فرق پر غور کرتے ہوئے پاکستان نے گھارو ، جھمپیر ، کیٹی بندر اور بن قاسم میں ونڈ پاور پلانٹ بنانے کا فیصلہ کیا ، یہ تعمیر چینی نگرانی میں کی گئی تھی تاہم سمندری توانائی کی ٹیکنالوجی پاکستان میں کام نہیں کررہی ہے لیکن یہ توقع کی جارہی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ سمندری توانائی گھریلو اور تجارتی استعمال میں سبز توانائی کی فراہمی میں اضافہ کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرے گی۔
پاکستان میں ساحل کا فاصلہ 1500 کلو میٹر سے زیادہ لمبا ہے جس میں سے 170 کلومیٹر دور انڈس ڈیلٹا کریک سسٹم پر واقع ہے ، صوبہ سندھ کے ساتھ ساتھ اس کی خصوصیات بھی موجود ہیں جو سمندری بجلی کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لئے بہترین مقامات ہیں۔
گھارو کی اوسط نظریاتی کارکردگی کے مطابق کیٹی بندر اور بن قاسم میں 50 گیگا واٹ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ گرین انرجی پلانٹس کی تیار ی پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
پاکستان ہر روز 20ہزارٹن سے زائد فضلہ مواد تیار کرتا ہے پھر بھی پاکستان میں سبزتوانائی کی پیداوار اور استعمال کے لئے کوئی واضح منصوبہ بندی کی پالیسی نہیں ہے اگرچہ سیاسی پالیسی ساز متعدد بار اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں لیکن جسمانی طور پر اس پر عمل درآمد سے قاصر ہیں۔
سیاسی خیالات کو اسٹیک ہولڈر کی غیر واضح افہام و تفہیم کے لئے آسان بنانے کی ضرورت ہے اور پہلے ایک واضح لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے لئے اس طرح کے اہداف سے مراد سینیٹ اور پارلیمنٹ کے ذریعہ مناسب طریقے سے ایکٹ کو اپنانا ہے۔ اس کے لئے افادیت کی بنیاد پر گرین انرجی پروڈکشن کے بارے میں یا تو متحد یا مختص کردہ اہداف کی ضرورت ہوگی۔