آج کا انسان اور مستقبل کی تاریخ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب سے دنیا میں کورونا وائرس کی وبائی بیماری پھیلی ہے ، انسانوں نے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے اور ہم انسانیت کو کیسے بچاسکتے ہیں یا زندگی آئندہ دس سالوں میں کیسی ہوگی؟ کیا ہمارے پاس زیادہ وائرس اور تباہی ہوگی یا ہم سب ایسی مصیبتوں کا حل تلاش کرنے میں کامیاب رہیں گے؟ اگر ہم آج وائرس کا شکار ہیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ ہم کسی دوسرے وائرس کا شکار نہیں ہوں گے؟ اگر وائرس نہیں تو پھر بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کا کیا ہوگا؟ زندگی کے تمام شعبوں میں سائنس دان اور محققین کام کر رہے ہیں چاہے وہ ٹیکنالوجی یا حیاتیات کا شعبہ ہو یا طبیعیات یا ڈاکٹرز سبھی اپنے اپنے شعبوں میں کام کر رہے ہیں تاکہ پہلے سے ہی معاملات کی نشاندہی کی جاسکے اور پائیدار حل تک پہنچ سکیں۔

 میں نے حال ہی میں سیاست اور سائنس کی دنیا کے بڑے ناموں باراک اوباما ، مارک زکربرگ اور بل گیٹس جیسی شخصیات کی سفارش کردہ کتاب ڈاؤن لوڈ کی۔  کتاب کا عنوان آنے والے کل کی مختصر تاریخ ہے جسے نوح حراری نے تحریر کیا۔ کتاب کا مصنف ماضی سے مثالیں پیش کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرتا ہے۔

موجودہ نسل میں بہت سے لوگ کورونا وائرس سے ناواقف تھے جو ایک نئی بیماری ثابت ہوا کیونکہ ہم مریخ پر جانے، بلیک ہولز تلاش کرنے اور یہاں تک کہ زمین پر بگ بینگ بنانے کی کوشش میں بھی انسانی ترقی کی رفتار تلاش کرتے ہیں۔

اگرچہ انسان ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر رہا ہے تاہم بائیو نیوکلیئر ہتھیاروں اور وائرس کا پھیلنا اب بھی ایک بہت بڑا واقعہ ہے جسے ہم نے نظرانداز کردیا۔ کتاب میں ماضی کی وباؤں اور ان کے پھیلنے کی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا حالانکہ گزشتہ ادوار میں ٹیکنالوجی ترقی یافتہ یا تیز رفتار نہیں تھی۔

ماضی کا مطالعہ کیجئے تو 1342 سن عیسوی میں بلیک ڈیتھ نامی طاعون مغربی ایشیاء کے کچھ علاقوں میں پھوٹ پڑا اور یہ یورپ کے دوسرے حصوں میں پھیل گیا۔ اس خوفناک طاعون نے آدھے یورپ کو متاثر کیا ، شہروں اور دیہاتوں میں ہزاروں افراد کو ہلاک کیا ، کھیتوں کو تباہ کردیا، مزدوروں کی جانیں لے لیں اور کاروباری زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔اس وقت ٹیکنالوجی اور سائنس میں یورپی ممالک بہت پیچھے تھے ، لیکن انسان اپنی بقاء کی جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔

آگے چلیں تو 1568ء میں میکسیکو اور وسطی امریکہ میں ایک خطرناک وائرس پھیل گیا ، جسے اس وقت کے لوگ کوچلیئر بیماری کہتے تھے۔ اس بیماری نے مسلسل 3 سال تک اس خطے کو تباہ کیا۔ اس وباء سے مرنے والوں کی تعداد 15 لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ پھر 1664ء میں لندن میں ایک بڑی طاعون نما بیماری پھوٹ پڑی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یورپی علاقوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں لندن ہجرت کر رہے تھے۔ یہ وباء پورے برطانیہ میں پھیل گئی ، جس سے ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے ، جن میں 16،000 لندن کے شہری بھی شامل ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں پیر جمانے کی کوشش کر رہی تھی۔

ایک بار پھر آگے بڑھیں تو 1918ء میں اسپین میں انفلوئنزا وائرس پھیل گیا۔ پہلے تو کسی نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی ، لیکن فلو بہت تیزی سے پھیلا اور اس وقت مذکورہ فلو کے علاج کیلئے کوئی خاص دوا ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ یہ پہلی جنگ عظیم کا وقت تھا اور ہر طرف افراتفری پھیل چکی تھی۔ یہ وباء اسپین سے نہیں پھیلی بلکہ یورپ کے کچھ حصوں سے اسپین میں داخل ہوگئی، حالانکہ اسپین پہلی جنگ عظیم میں شامل نہیں تھا اور ایک غیر جانبدار ملک سمجھا جاتا تھا۔

اسپین کے اخبارات آزاد تھے جو فلو کی خبریں شائع کرتے تھے ، جبکہ باقی یورپ کے اخبارات پر جنگ کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی تھی ، لہٰذا بیماری کو اسپین کا فلو یا ہسپانوی فلو سے تعبیر کیا گیا۔ یہ وباء بہت سارے یورپی ممالک میں پھیل گئی۔ امریکی بحریہ کی 40 فیصد فوج مذکورہ فلو سے متاثر ہوئی، جو امریکہ تک پھیل گئی۔ جنگ کی وجہ سے ہسپتال پہلے ہی زخمیوں سے بھرے پڑے تھے۔ ڈاکٹر اور نرسیں دن رات کام کر رہی تھیں۔ دوسری طرف فلو کی وبا ہزاروں افراد کو کمزور کررہی تھی۔

متاثرہ ممالک کی حکومتوں نے اجتماعات پر پابندی عائد کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا۔ اسکول ، تھیٹرز ، کلب اور بازار سب بند کردئیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس بیماری نے کھانسی ، نزلہ اور زکام کے ساتھ ساتھ متعدی بیماریوں کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کتنے ہی افراد کے جنازے نہ پڑھے جاسکے۔ اس وباء نے صرف امریکہ میں ہی 15000 افراد کو ہلاک کردیا۔

تین سال میں یعنی 1919ء تک ہسپانوی فلو کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے جو کسی بھی وباء کی وجہ سے ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 2008ء کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہسپانوی فلو اتنا مہلک تھا کہ اس میں 3 جینز مل کر ایک مریض کے گلے پر حملہ کرتے ہیں جس کے بعد پھیپھڑوں میں موجود جراثیم سے دوسرے جراثیم کیلئے جگہ بن جاتی ہے اور یہ انفیکشن مریض کو فوری طور پر ہلاک کردیا کرتا تھا۔ فلو کی ویکسین 1919 کے آخر میں تیار کی گئی تھی۔ 1919 سے ہی دیگر مختلف فلو اور وائرس دنیا بھر میں پھیلے  لیکن کورونا وائرس کی آمد تک ایسے وائرس اتنے مہلک نہیں ہوئے تھے۔

ایسے کچھ وبائی امراض ہیں جن کو کتاب نے ایک کہانی کی صورت میں بیان کیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ انسان اس سے کیسے نکلا۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ سائنسی پیشرفت اور تکنیکی کامیابی مختلف وبائیں اور وائرس تو نہ روک سکی لیکن ہمارے قدرتی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے میں ضرور اس کا کردار دریافت کیا جاسکتا ہے۔

کتاب نہ صرف آپ کو موجودہ زمانے کی تاریخی معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ کل کے بارے میں بھی کچھ پیش گوئیاں پیش کرتی ہے جنہیں ہم نے کافی تاریک ، انتشار پر مبنی اور پریشان کن پایا۔ مصنف پہلے ہی اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہومو ساپیئنز کے باعث مشہور ہے اور اب اس کی کتاب کا عنوان ہومو ڈیوس رکھا گیا ہے جس کا مطلب خدا بن بیٹھنے والے انسان لیا جاسکتا ہے۔ عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ انسان خود ہی اپنی زندگی کو تخلیق اور تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے میں لگ گیا ہے۔

وبائی بیماری ، قحط اور تشدد جیسے مسائل حل ہونے کے ساتھ ہی انسان لافانیت یا موت سے نجات کا طریقہ تلاش کرے گا۔ گوگل کا کالیکو پراجیکٹ پہلے سے ہی انسان کی عمر بڑھانے اور موت کو روکنے کے طریقوں پر کام کر رہا ہے۔ مصنف نے ٹیکنو ہیومنزم کی اصطلاح استعمال کی۔گویا لافانیت اور ابدی خوشی کی جستجو میں انسان حیاتیاتی یا جینیاتی انجینئرنگ سے اپنے آپ کو اپ گریڈ کرنے کیلئے ٹیکنالوجی کا سہارا لیں گے۔

مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت انسانوں کو الگورتھم کے سیٹ کے ذریعے سلوک کی پیش گوئی اور وضاحت کرنے کیلئے کام کرتی ہے ، اسی طرح مستقبل میں انسان بھی مصنوعی ذہانت کی پیروی کرے گا۔ ہم نے پہلے ہی نیٹ فلکس سیریز دی ون دیکھ رکھی ہے جس میں ڈی این اے کے ذریعے ایک ڈیٹنگ کی ایپ آپ کے ہونے والے شریکِ حیات سے ملاقات کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔

آنے والے دور میں ڈیٹا ایک نیا مذہب بن سکتا ہے، کیونکہ یہ زندگی کو ڈیٹا پراسیسنگ اور افراد اور تنظیموں کو الگورتھم کے طور پر پیش کرتا ہے اور دن میں ہونے والی سرگرمیوں کو ڈیٹا میں تبدیل کرنے کیلئے انسانی قدر کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم روزانہ کھانے اور علاج سمیت دیگر خدمات حاصل کرنے کیلئے نمبرز، کرپٹو کرنسی، جائزہ چیک اور درجہ بندی پر کام کرتے ہیں اور آئندہ دور میں یہ اعدادوشمار اور ڈیٹا ہمارے لیے بے حد اہم ہوجائے گا۔

میری رائے میں ہوموڈیوس ایک ایسی کتاب ہے جو قیاس آرائی پر مبنی ضرور ہے لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ اسے پڑھنے سے ہوسکتا ہے۔ تمام ٹیکنالوجی اور الگورتھم بنانے والے لوگ مستقبل میں بھی انسان ہی ہوں گے لیکن منظرناموں کو تبدیل کرنا انسانی عقائد اور اقدار کے ساتھ ساتھ تجربات کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

حقیقت میں انسان الگورتھم کی بنیاد پر زندگی نہیں گزارتے اور زندگی ڈیٹا پر کارروائی کا نام نہیں ہے۔ ہمارا شعور، احساس، جذبات اور خیالات انتہائی قیمتی چیزیں ہیں جو ہمارے ذہنوں اور دل میں محفوظ ہوتی ہیں اور کبھی مشینیں ان کی جگہ نہیں لے سکتیں۔

اپنے ایک حالیہ مضمون میں نامور مصنف ناؤم چومسکی نے تحریر کیا کہ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد سب سے سنجیدہ مسئلہ ایٹمی جنگ اور گلوبل وارمنگ ہوں گے۔ یہ ایسے اہم سوالات ہیں جن کا فیصلہ رائے کی بجائے حقیقت سمجھ کر کیا جائے گا۔

Related Posts