ملک کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف قانونی چارہ جوئی، سچے جھوٹے الزامات اور مقدمات کے اندراج کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ ہمارے ملک میں پیدا ہونے والی سدابہار فصل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
سردی، گرمی، خزاں اور بہار سمیت کسی بھی موسم کی آمد یا رخصت سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گزشتہ روز بھی سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے اپنے خلاف کریک ڈاؤن، گھر میں چھاپوں، مبینہ توڑ پھوڑ، ملازمین پر تشدد اور گھر میں ڈکیتی سمیت دیگر الزامات پر موجودہ وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی۔
بجٹ کی آمد کے ساتھ ہی امید ہوچلی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مابین کچھ نہ کچھ افہام و تفہیم ہوگی تاکہ ملک کو معاشی مسائل کے بھنور سے نکالا جائے، تاہم حکومت اور اپوزیشن دونوں کا ایک دوسرے پر غصہ کسی بھی طرح کم ہونے میں نہیں آتا۔
گزشتہ روز اسلام آباد پولیس نے حکومت کی جانب سے تابڑ توڑ کارروائی کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر علی افضل ساہی کو گرفتار کر لیا۔ گویا اگر ایک جانب سے مقدمات کی درخواست آئی تو دوسری جانب سے گرفتاری کرکے حساب برابر کردیا گیا۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ گرفتاری پہلے ہوئی یا مقدمہ درج کرنے کی درخواست پہلے دی گئی، تاہم کسی بھی جانب سے مسائل کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی اور اس ضمن میں ایک بہت ہی سنگین حقیقت کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔
وہ حقیقت یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں اپوزیشن پر مقدمات چلائے گئے اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف، ان کے بڑے بھائی نواز شریف، مریم نواز، سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر نے مقدمات بھگتے۔
پھر یہی مقدمات کا سلسلہ عمران خان کے خلاف درج ہوا اور پھر عمران خان، بشریٰ بی بی، اسد عمر اور فواد چوہدری سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے نہ صرف مقدمات بھگتے بلکہ 9 مئی کے واقعات کے بعد سیاست چھوڑنے کے اعلانات بھی کرنے پر مجبور ہو گئے۔
اس سے قطعِ نظر کہ پارٹی قیادت اور سیاست دونوں ایک ساتھ چھوڑنے کے پیچھے کیا وجوہات ہوسکتی ہیں، محسوس ایسا ہوتا ہے کہ عمران خان نے جو فصل بوئی تھی، انہیں وہی کاٹنی پڑ گئی یعنی اپنے مخالفین پر مقدمات، گرفتاریاں اور عدالتی کارروائیاں۔ ؎
ہماری عدلیہ بھی اس تمام تر عمل سے پوری طرح لطف اندوز ہورہی ہے اور یہ حقیقت بالکل فراموش کردی گئی ہے کہ موجودہ سیاسی عدم استحکام ملک کو معاشی تباہی کے کنارے تک لا چکا ہے۔ ڈیفالٹ کے خدشات، بد ترین بے روزگاری اور تاریخ کی بلند ترین مہنگائی اس کے واضح ثبوت ہیں۔
اگر حکومت اور اپوزیشن نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اس کا تمام تر بوجھ عوام کو سہنا پڑے گا، کیونکہ خدانخواستہ ملک کے ڈیفالٹ کر جانے یا کسی اور معاشی طوفان کے باعث جو مہنگائی کا طوفان آسکتا ہے اور جو مزید بے روزگاری اور دیگر معاشی بدحالی پر مبنی عوامل پیدا ہوسکتے ہیں، انہیں کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔