یوکرین سے اسرائیل تک پھیلا جنگی منظرنامہ خطرناک حد تک باہم مربوط ہوکر الجھ گیا ہے۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے کو ترستے امریکہ کے لئے صورتحال اک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے۔
آیئے سب سے پہلے اسی نکتے کو سمجھتے ہیں کہ یہ صورتحال امریکہ کے لئے ڈراؤنا خواب کیوں ہے ؟ اگر آپ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگے گی کہ امریکہ کی عالمی اجارہ داری قائم کرنے میں کلیدی کردار تین چیزوں ادا کیا تھا۔
پہلی چیز یہ تھی کہ یورپ تو دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر امریکہ کو اس جنگ میں پرل ہاربر والی شرمندگی کے سوا کوئی نقصان نہ ہوا تھا۔ اس کی تمام ریاستیں اور شہر اس جنگ کی حرارت سے محفوظ رھے تھے۔ یوں اسے کسی تعمیر نو کا چیلنج درپیش نہ تھا۔ دوسری چیز یہ کہ اس جنگ کے آخری مراحل میں امریکہ نے ایٹم بم کا استعمال کر دیا تھا۔
یہ ایک بالکل ہی نیا ہتھیار تھا اور اس کی ہلاکت خیزی اس پیمانے کی تھی کہ زمین کے ہر کونے تک امریکہ کی دہشت پھیل گئی تھی۔اس صورتحال میں امریکہ “مارشل پلان” کے ساتھ آگے آیا اور یورپ کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھا لیا۔ بظاہر تعمیر نو کا منصوبہ نظر آنے والا مارشل پلان در اصل اس غلامی کی قیمت تھی جو اب یورپ نے آنے والے سالوں میں امریکہ کی کرنی تھی۔
یوں امریکہ مغربی اقوام کا مائی باپ بن گیا۔ تیسری چیز یہ کہ جلد ہی امریکہ نے ڈالر کو عالمی کرنسی بنوا کر پوری دنیا کو اپنی معاشی گرفت میں بھی لے لیا۔ اور یہاں سے شروع ہوا اس کی عالمی غنڈہ گردی کا دور۔
اس غنڈہ گردی میں اہم کردار سی آئی اے اور امریکی فوج نے ادا کیا۔ کسی بھی ملک سے امریکہ کے کسی بھی مطالبے کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوتا کہ بات مانئے ورنہ تباہ و برباد ہونے کے لئے تیار ہوجایئے۔ دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے پچھتر سالوں میں امریکہ نے دنیا بھر میں کیا کیا قہر ڈھائے۔
اس قہر میں اہم ترین کردار امریکی حربی ٹیکنالوجی اور اس کے یورپین غلاموں کی ہمنوائی کا رہا۔ جب امریکہ ان ہمنواؤں کو ساتھ ملا کر “راگ بربادی” چھیڑتا تو دنیا بھر کے میڈیا پر تاثر یہ قائم ہوجاتا کہ یہ صرف امریکہ کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا موقف ہے۔ حالانکہ وہ 192 میں سے صرف چالیس ممالک کا موقف ہوتا۔ مگر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ باقی ممالک اس لئے بے اثر رہ جاتے کہ وہ ٹیکنالوجی اور معیشت کے معاملے میں بہت ہی پیچھے تھے۔ یوں عالمی نظام جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر چلتا رہا۔
اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اب آج کے منظرنامے کا مشاہدہ کیجئے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ معیشت اور ٹیکنالوجی دونوں ہی حوالوں سے چائنا سے پیچھے ہوگیا ہے۔ اور اس کے اور چائنا کے بیچ یہ فرق اب مسلسل بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں چین کا پڑوسی پارٹنر روس تو حربی لحاظ سے چین اور امریکہ دونوں سے بہت آگے ہے اور اس چینی پارٹنر نے 21 نومبر کو حربی ٹیکنالوجی کی اتنی بڑی پیش رفت کردی ہے کہ اب خود مغرب کے ماہرینِ فزیکس دھیرے دھیرے تفصیلات سامنے لا رہے ہیں کہ اس روسی پیش رفت نے عین وہی صورتحال پیدا کردی ہے جو امریکہ کے جاپان پر پھینکے گئے ایٹم بموں نے پیدا کی تھی۔
یہ بات روس کے اوریشنک میزائل کے حوالے سے کہی جا رہی ہے۔ ایٹم بم کا ایک بڑا سائیڈ ایفیکٹ یہ تھا کہ اس کے حملے میں لاکھوں سویلین اموات بھی ہوجاتی تھیں جو سرے سے حملہ آور کو مطلوب ہی نہ ہوتیں۔ کیونکہ جنگوں میں فتح و کامرانی کے لئے بس اتنا ہی درکار ہوتا ہے کہ حریف ملک کی عسکری طاقت کو ختم کردیا جائے۔ اور سویلین آبادی کو کسی صورت نشانہ نہ بنایا جائے۔ روس نے اوریشنک میزائل کے پہلے استعمال میں یہ ثابت کردیا ہے کہ اس نے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ اس کا یہ نیا ہتھیار تباہی تو ایٹمی ہتھیار جیسی ہی مچائے گا لیکن نہ سول آبادی اس کی لپیٹ میں آئے گی اور نہ ہی کوئی تابکاری پھیلے گی۔
ہم چونکہ سائنس کے طالب علم نہیں رہے، اس لئے اس کی زیادہ باریک تفصیلات پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ البتہ موٹی موٹی جو دو باتیں جو ماہرینِ فزیکس سے سنی ہیں وہ پیش کر دیتے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اوریشنک حملے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس کے وارہیڈز میں کسی بھی قسم کا دھماکہ خیز مواد نہیں تھا۔
ایٹمی یا بارودی کوئی بھی عنصر اس میں استعمال نہیں کیا گیا۔ ایک ہی میزائل کے یہ چھتیس وارہیڈ جب تین کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار سے ہدف کے عین سر پر پہنچے تو سپیڈ اور اور اس سے حاصل ہونے والی کنیٹک انرجی ہی اس کی اصل طاقت تھی۔ اور اس رفتار پر ہر وارہیڈ چار ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت بھی اختیار کرچکا تھا۔ سو یہ وارہیڈ جب کئی کلومیٹر پر محیط یوکرینی اسلحہ پلانٹ سے ٹکرائے تو اس کی انرجی نے ہر چیز کو ذروں میں تبدیل کردیا۔
سینکڑوں فٹ کی گہرائی رکھنے والے اس پلانٹ میں زمین دوز بھی کچھ سالم نہ بچا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے کسی پلانٹ پر ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار سے حملہ کردیا جائے۔ فرق بس یہ تھا اگر ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار استعمال ہوتا تو وہ پورے علاقے میں تابکاری پھیلا کر بڑے پیمانے پر سویلین اموات بھی کردیتا۔ جبکہ اوریشنک نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس نے صرف ہدف کو ہی حقیقتا راکھ کا ڈھیر بنایا۔
رعایت اللہ فاروقی کے گزشتہ کالم پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔
اب ذرا آپ اس کی اہمیت دیکھئے۔ اس نئے جدید ترین ہتھیار کے بعد جلد ہی روس اس مقام پر ہوگا جہاں اسے کسی ملک پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ لیکن ٹارگٹ ملک کے ہر سٹریٹیجک ہدف کو وہ محض ایک میزائل کی مدد سے ہی راکھ کا ڈھیر بنانے کی پوزیشن میں ہوگا۔
وہ ہر ہدف پر تباہی ایٹمی ہتھیار جیسی مچائے گا مگر اس پر یہ الزام بالکل نہ آئے گا کہ اس نے لاکھوں معصوم سویلین انسانوں کی جان لی اور دنیا کے کسی بڑے حصے میں تابکاری پھیلائی، جس سے انسان، چرند و پرند سمیت ہر ذی روح کی جان لے لی۔ اگر وہ اس ہتھیار سے اپنے دشمن کے اسلحہ کارخانے اور ان کے بڑے ڈپو اڑا دیتا ہے تو کیا وہ ملک جنگ لڑنے کی پوزیشن میں باقی رہے گا ؟
اس صورتحال میں اب آپ ذرا یہ بھی دیکھئے کہ روس اور امریکہ صرف یوکرین میں ہی نہیں بلکہ مشرق وسطی میں بھی حربی طور پر روبرو ہیں۔ جہاں حال ہی میں روسی ٹیکنالوجی نے اسرائیل اور امریکہ دونوں کی بدمعاشی کا بھرم توڑ دیا ہے۔ وہ بھرم جس کے زور پر امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا پر راج کیا ہے۔ اگر یوکرین اور مشرق وسطی کی جنگیں روسی فتح پر منتج ہوجاتی ہیں تو امریکہ کی عالمی اجارہ داری ہی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ سو یوکرین اور مشرق وسطی کی یہ جنگیں امریکہ کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہیں۔
یوکرین سے مایوسی کے بعد اب امریکہ مشرق وسطی میں ایک بالکل ہی نئے حربے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ جو نیتن یاہو غزہ میں سیز فائر نہیں کر رہا وہ جنوبی لبنان کی محض دو ماہ کی جنگ کے بعد ہی لبنان سے جنگ بندی پر آمادہ ہوگیا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ جس میں اب حیرت والی کوئی بات نہیں رہی۔ لبنان میں جنگ بندی کے اگلے ہی روز شام میں داعش کے ایک بڑے لشکر نے الیپو شہر پر یلغار کردی۔
جانتے ہیں داعش کی سپورٹ کون کر رہا ہے ؟ اسرائیل، امریکہ اور ترکی، جہاں ترکی داعش کی سپورٹ کر رہا ہے۔ اور مقصد اس کا کیا ہے ؟ صرف یہ کہ جنوبی لبنان کو محض دو ماہ میں اسرائیل کے لئے موت کنواں بنانے والی حزب اللہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ لبنان سے اپنی سپاہ کا کچھ حصہ فوری طور پر شام منتقل کرے تاکہ اسرائیل کا کام آسان ہوسکے۔ اور وہ کسی طرح اسے کوئی فتح نصیب ہوسکے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بعض خوش فہم مذہبی قارئین کو یقین نہ آئے گا کہ ترکی اسرائیل کی مدد کر سکتا ہے۔ انہیں یہی لگے گا ہم السلطان المسلم طیب ارگان ظل اللہ فی الارض کی تو ہین کر ہے ہیں۔ وہ ایسا کیسے فرما سکتے ہیں ؟ وہ تو عصر ھاضر کے خلیفہ راشد ہیں۔ سو عرض کردیں کہ آپ کو اس پر حیرت ہوسکتی ہے، ہمیں نہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عرب ممالک میں سے بعض نے تو شدید امریکی دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، جبکہ ترکی نے یہ کار خیر کسی دباؤ اور مطالبے کے بغیر ہی فرما لیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ سالہا سال سے اسرائیلی فوج کی ٹریننگ میں بھی یوں خفیہ مدد کر رہا ہے کہ اسرائیلی فوج لانگ رینج ہتھیاروں کی ٹریننگ اسرائیل میں نہیں کرپاتی کیونکہ اس کے پاس وسیع زمین ہی نہیں ہے۔
چنانچہ اس کی فوج کو ٹریننگ کی یہ سہولت ترکی اپنی سرزمین پر فراہم کرتا ہے۔ اب یہ آپ سوچئے کہ اسرائیلی فوج “عثمانی سرزمین” پر جو ٹریننگ حاصل کرتی ہے وہ کن کے خلاف استعمال ہوتی ہے ؟ اس ٹریننگ کی مدد سے اس نے کن کو مارنا ہوتا ہے ؟
یہ صورتحال افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل غزہ میں بھی ناکام رہا، لبنان کے خلاف تو صرف دو ماہ میں ہی ہاتھ کھڑے کر لئے، اور ایران کے خلاف بھی بڑی شرمندگی سے دوچار ہوا۔ یہ صورتحال اسے شام میں بھی پیش آئے گی۔ داعش، امریکہ اور ترکی اسے شکست فاش سے نہیں بچا سکتے۔ ترکی تو جلد ہی ریورس گیئر لگائے گا کیونکہ یہ عربوں کی ناراضگی افورڈ نہیں کرسکتا۔
ضرورت پڑنے پر حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ بھی ختم کرسکتی ہے۔ اور یہ اس کے لئے اس لئے بھی بہت آسان ہوگا کہ جنگ بندی کا معاہدہ حزب اللہ نے سائن ہی نہیں کیا۔ یہ معاہدہ لبنان کی حکومت اور اسرائیل کے بیچ ہوا ہے۔