بلاول وزیر خارجہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کم عمر ترین وزیر خارجہ بن کر تاریخ رقم کر دی۔ بلاول نے وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی اور پہلی بار وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ ان کی تقرری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان کو بیرونی محاذ پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور اسے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہوگی۔

بھٹو خاندان سے تعلق رکھنے والے 33سالہ بلاول بھٹو اپنے دادا ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو بھی 35 سال کی عمر میں وزیر خارجہ بنے تھے۔ ابھی چند ماہ قبل یہ بات ناقابل فہم تھی کہ پی پی پی کی چیئرپرسن موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ماتحت کام کریں گی یا انہیں وفاقی وزارت دی جائے گی۔

پیپلز پارٹی بھی اس بات پر منقسم تھی کہ بلاول کو ٹاسک دیا جائے، یہ کہا جارہا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ وہ خود ایک بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین ہوتے ہوئے کسی اور پارٹی کے صدر کے ماتحت خدمات انجام دیں۔ زرداری نے یہاں تک اشارہ دیا تھا کہ پیپلز پارٹی شاید وفاقی کابینہ میں بھی شامل نہ ہو۔ بلاول پہلے مرحلے میں کابینہ کی حلف برداری کی تقریب میں موجود تھے لیکن حلف نہیں اٹھایا۔ ایسا لگتا ہے کہ حتمی فیصلہ لندن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات کے بعد کیا گیا جہاں انہوں نے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔

بلاول 2018 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن بطور کابینہ رکن اور پیشہ ورانہ خدمات میں یہ ان کا پہلا موقع ہے۔ انہوں نے پاکستان کے مفادات کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیر مملکت حنا ربانی کھر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک نیا تناظر پیش کرنے میں ان کی مدد کریں گی۔

بلاول کو بطور وزیر خارجہ دو بڑے چیلنجز ہوں گے۔ کابینہ کے رکن کی حیثیت سے وہ براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوں گے۔ اگرچہ دونوں نے ایک ساتھ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ رشتہ کس حد تک آگے بڑھتا ہے۔ دونوں جانتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں جب بھی ان کا مقابلہ ہوگا، وہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔

ایک اور کام مغرب کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا ہے خاص طور پر امریکہ کے ساتھ جو متنازع خط کے تنازعہ کے بعد عمران خان کی حکومت کے دوران خراب ہوئے تھے۔ نئی حکومت بائیڈن انتظامیہ اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے جس کا سامنا بلاول کو بطور وزیر خارجہ کرنا ہوگا۔

نئی حکومت کو مودی کی طرف سے مثبت جواب ملنے کی صورت میں بھارت کے ساتھ کشیدگی میں کمی کی توقع ہے۔ حالیہ سرحد پار واقعات کے پیش نظر افغانستان ایک اور مسئلہ ہے۔ بلاول کے لیے خارجہ پالیسی کے محاذ پر پیش رفت دکھانا یقیناً ایک مشکل کام ہوگا۔

Related Posts